وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي وَ مَجْدِي وَ ارْتِفَاعِي عَلَى عَرْشِي لَأَقْطَعَنَ أَمَلَ كُلِّ مُؤَمِّلٍ غَيْرِي بِالْيَأْسِ وَ لَأَكْسُوَنَّهُ ثَوْبَ الْمَذَلَّةِ عِنْدَ النَّاس (الکافی، ج2، ص66)
اس حدیث قدسی میں الله تعالی قسم کھاتا ہے کہ جس کسی نے بھی میرے علاوه کسی سے امید لگائی، اس کی امید کو ناامیدی سے بدل دوں گا، نہ صرف یہ بلکہ اسے لوگوں کے درمیان ذلیل و خوار کر دوں گا.
اب ہم اپنے آپ کو آزمائیں؛ کیا ہمارے کاموں میں حقیقتاً ہماری امید صرف خدا سے ہے؟ اگر ہم نے خدا سے امید لگائی ہو تو ہمیں کیسا ہونا چاہئے؟ یہ مسئلہ مراتب کے اختلاف کے ساتھ سب کو درپیش ہے!
سوال: دل کا صرف الله تعالی کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے؛ لیکن کیا (اس کا مطلب یہ ہے کہ) کوئی کام انجام نہ دیں؟
جواب: واضح ہے کہ (اس) عالم اسباب میں ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں ہیں اور ضروری ہے کہ ہم انہیں انجام دیں؛ لیکن وسائل نتیجوں کو ایجاد نہیں کرتے!
ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی سب سے پہلے یہ دیکھے کہ ہماری ذمہ داری اپنی طاقت اور ان وسائل کی بنیاد پر جو خدا نے ہمیں دئے ہیں اور ہم انہیں اسلام کی راه میں استعمال کر سکتے ہیں، کیا ہے؟
اسی کے ساتھ الله کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اپنے آپ کو ٹٹولیں کہ اس ذمہ داری کو تشخیص دینے میں ہماری اصلی نیت اور اراده کیا تھا تاکہ الله کی بارگاه میں اپنے اس فیصلے کے لئے جواب رکھتے ہوں؛
اور آخر میں کامیابی اور نتیجے تک پہنچنے کے لئے صرف الله تعالی سے امید لگائیں، اور دنیا سے لگاؤ ذمہ داری کو انجام دینے میں رکاوٹ نہ بنے!
No comment yet, add your voice below!