پہلے دن سے جب سے انسان اس عالم میں خلق ہوا سختیاں اس کی تخلیق کا حصہ رہی ہیں. یہ عارضی چیز نہیں ہے.
اس کا راز یہ ہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے – وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً (سوره انبیاء: 35) یعنی “اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے” – اور آزمائش کے لئے خوشیوں اور غموں کا موجود ہونا ضروری ہے تاکہ پتا چل سکے کہ جب خدا انسانوں کو خوشیاں دیتا ہے تو وه کس طرح عمل کرتے ہیں اور سختیوں کے مقابلے میں کس طرح کا کردار اپناتے ہیں.
انسان کی معرفت، اطاعت، خدا کی عبادت اور حوصلہ مندی کا اندازه ان خوشیوں اور سختیوں کو ایک ساتھ دیکھنے سے لگایا جاتا ہے. اگر صرف خوشیاں پائی جاتیں تو پتا نہ چلتا کہ خدا کی بندگی کے راستے میں کون زیاده قربانی دینے کے لئے حاضر ہے.
اگر کربلا کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو ہم کس طرح سمجھتے کہ سیدالشهداءؑ بندگی میں کیا مقام رکھتے ہیں؟! اور خدا کی راه میں کس حد تک قربانی دینے کے لئے تیار ہیں؟! ضروری ہے کہ اس طرح کا حادثہ پیش آئے تاکہ معلوم ہو کہ انسانوں میں کتنے عظیم گوہر پائے جاتے ہیں. . . لہذا عالم میں سختیوں کا وجود خلقت کا حصہ ہے. کیونکہ یہ طے ہے کہ انسان اپنے اختیار سے کمال تک پہنچے.
No comment yet, add your voice below!