مصنف
امام خمینی رحمت اللہ علیہ
موضوع
کتاب جہاد اکبر سے اقتباسات
میسجز
22 میسجز
اگر آپ بینرز کے لیے اعلیٰ کوالٹی کے پوسٹرز چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔
موضوع کی تفصیل
امام خمینی رضوان الله تعالی کی کتاب جہاد اکبر سے خلاصہ وار اقتباسات کی سیریز
سوال و جواب
#حب_دنیا ان تمام اختلافات کی جڑ ہے جن کا کوئی مشخص اور مقدس ہدف نہ ہو.
اور اگر آپ کے درمیان بھی اس طرح کے اختلافات موجود ہیں تو یہ اس وجہ سے ہیں کہ آپ نے حب دنیا کو اپنے دل سے نہیں نکالا ہے.
اور چونکہ دنیاوی چیزیں محدود ہیں اس لیے ہر کوئی انہیں پانے کے لیے دوسرے سے رقابت شروع کر دیتا ہے. مثلاً آپ کو فلاں مقام کی آرزو ہے اور کوئی اور بھی اسی مقام کو چاہتا ہے تو لازمی طور پر اس کا نتیجہ حسد اور جھگڑے کی صورت میں ہی نکلے گا.
لیکن مردانِ خدا جنہوں نے اپنے دل سے دنیا کی محبت کو نکال دیا ہے اور ان کا مقصد خدا کے سوا کچھ نہیں، ان میں کبھی بھی جھگڑا نہیں ہوتا اور اس کے نتیجے میں وه ایسے فساد اور مشکلوں کو ایجاد کرنے کا باعث نہیں بنتے.
اگر آج الله تعالی کے سارے پیغمبرؑ ایک شہر میں جمع ہو جائیں تو ہرگز آپس میں اختلاف اور تفرقہ کا شکار ںہیں ہونگے کیونکہ ان سب کا ایک ہی ہدف اور ایک ہی مقصد ہے؛ ان سب کے دل الله تعالی کی طرف متوجہ ہیں اور دنیا کی محبت سے خالی ہیں.
آپ خود اپنے ہاتھوں سے آگ روشن نہ کریں؛ جہنم کی آگ کو شعلہ ور نہ کریں؛ جہنم کی آگ انسان کے برے اعمال و کردار کی وجہ سے روشن ہوتی ہے؛ یہ انسان کے سرکش اعمال ہیں جن کی وجہ سے یہ آگ روشن ہوتی ہے. روایت میں ہے کہ جُزنا و هی خامِدَة (علم الیقین؛ ج 2، ص 917) یعنی “ہم دوزخ سے گزرے اور وه خاموش تھی”. اگر انسان اپنے اعمال سے آگ کو نہ بھڑکائے تو جہنم خود سے خاموش ہے. یہ جہنم کی اندرونی طبیعت ہے؛
… جب انسان اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف جاتا ہے اور پردے ہٹ جاتے ہیں تو پھر اسے سمجھ آتی ہے کہ: ذلک بما قَدَّمَت اَیْدیکُم (سوره آل عمران: 182) وَوَجَدوا ماعَمِلوا حاضِراً (سوره کہف: 49) یعنی “اس لئے کہ تم نے پہلے ہی اس کے اسباب فراہم کرلئے ہیں” اور “اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے”.
انسان سے انجام پائے جانے والے تمام اعمال اس جہاں میں دیکھے جائیں گے اور اس شخص کے سامنے مجسم ہو جائیں گے: فَمَن یَعْمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَه و مَن یَعمَل مِثقالَ ذَرَةٍ شَرّاً یَرَه (سوره زلزال: 7-8) یعنی “پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا”.
انسان کے تمام اعمال و کردار دوسرے جہاں میں منعکس ہوتے ہیں. جیسے کہ ہماری زندگی کی فلم بنائی جا رہی ہو اور اسے دوسرے جہاں میں دکھایا جائے گا اور وه ناقابل انکار ہو گی. ہمارے تمام اعمال کو ہمارے اعضاء و جوارح کی گواہی کے ساتھ ساتھ ہمیں دکھایا بھی جائے گا: قٰالوا اَنطَقَنَا الله الّذی اَنطَق کُلَّ شیءٍ (سوره فصلت: 21) یعنی “جواب دیں گے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے سب کو گویائی عطا کی ہے”.
الله کی بارگاه میں جس نے تمام چیزوں کو سوچنے سمجھنے والا اور بولنے والا بنایا ہے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ اس کے سامنے اپنے برے کاموں کا انکار کریں اور انہیں چھپائیں.
تھوڑا سوچیں، دوراندیشی کا مظاہره کریں، اعمال کے نتائج کو پرکھیں،
انسان کو درپیش خطرناک مرحلوں کو یاد کریں جیسے فشار قبر، عالم برزخ اور اس کی مشکلات اور ان کی شدت کو، غفلت کا شکار نہ ہوں! کم از کم جہنم پر یقین رکھیں.
اگر انسان حقیقتاً ان پیش آنے والی خطرناک چیزوں پر یقین رکھے تو وه اپنی زندگی گزارنے کی روش کو تبدیل کر لے گا.
اگر آپ ان چیزوں پر یقین اور ایمان رکھیں تو اس طرح آزدانہ زندگی نہیں گزاریں گے بلکہ اپنے قلم، قدم اور زبان کی حفاظت کریں گے اور اپنی اصلاح اور تہذیب نفس کے لیے کوشش کریں گے.
الله تعالی نے انسانوں پر اپنے فضل و کرم کی وجہ سے انہیں عقل عطا فرمائی، انہیں تہذیب نفس اور اسے پاک کرنے کی طاقت عنایت فرمائی، انبیاءؑ اور اولیاء کو بھیجا تا کہ وه ہدایت پائیں اور اپنی اصلاح کریں اور جہنم کے دردناک عذاب کا شکار نہ ہوں.
اگر یہ ساری روک تھام کرنے والی چیزیں انسان کے لیے ہوشیار ہو جانے اور تہذیب نفس کا باعث نہ بنیں تو خدا دوسرے طریقوں سے اسے متوجہ کرتا ہے جیسے طرح طرح کی پریشانیاں، بلائیں، فقیری اور مریضی سے انہیں توجہ دلاتا ہے.
خدا ایک ماہر طبیب کی طرح … کوشش کرتا ہے کہ اس مریض انسان کو خطرناک روحانی بیماریوں سے نجات عطا فرمائے.
اگر انسان الله تعالی کے فضل و کرم کے سائے میں ہو تو اسے یہ بلائیں پیش آتی ہیں تا کہ ان بلاؤں کی وجہ سے خدا کی طرف متوجہ ہو اور پاک ہو جائے.
صرف یہی ایک راستہ ہے اور اس کے علاوه کوئی راستہ موجود نہیں.
لیکن ضروری بات یہ ہے کہ انسان اپنے #اختیار سے اس راستے کو طے کرے تا کہ نتیجہ حاصل کرے.
اور اگر اس راه سے بھی نتیجہ حاصل ںہ ہوا اور گمراه انسان کا علاج نہ ہو سکا اور وه جنت کی نعمتوں کے قابل نہ بنا تو خدا موت کے وقت اسے سختی کا شکار کرتا ہے تا کہ انسان پلٹ آئے اور متوجہ ہو.
اگر اس سے بھی نتیجہ حاصل نہ ہو تو قبر اور عالم برزخ میں اسے ہولناک مرحلوں میں مشکلات اور مختلف عذابوں کا شکار کرتا ہے تا کہ پاک ہو جائے اور جہنم میں نہ جائے.
یہ سب خداوند عالم کی جانب سے وه عنایتیں ہیں جو انسان کے جہنمی بننے کی راه میں رکاوٹ بنتی ہیں.
اگر کوئی الله تعالی کی ان ساری عنایتوں کے باوجود شفا نہ پائے تو پھر کیا ہو گا؟
پھر اس صورت میں سوائے جلائے جانے کے کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا! شاید انسان مہذب نہ ہو، اس کی اصلاح نہ ہو، یہ علاج اس کے لیے مؤثر واقع نہ ہوں اور اس کے لیے ضروری ہو جائے کہ اس کا کریم اور مہربان رب اپنے بندے کو آگ کے ذریعے اصلاح کرے! سونے کی طرح جس کے لیے ضروری ہے کہ وه آگ میں خالص اور پاک ہو.
لابِثینَ فیها اَحْقابٰا (سوره نباء: 23) یعنی “اس میں وہ مدتوں رہیں گے” اس آیت کے ذیل میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ یہ «حُقْب» ہدایت یافتہ افراد اور ان لوگوں کے لیے ہے کہ جن کا ایمان خود محفوظ ہو.
اگر ہم مومن ہوں تو یہ آیت میرے اور جناب عالی کے لیے ہے. خدا ہی جانتا ہے کہ ہر حقب کتنے ہزار سال کا ہے.
خدا نہ کرے کہ نوبت ایسے مرحلے تک پہنچ جائے کہ پھر علاج کا کوئی فائده نہ ہو اور پھر جنت میں جانے کے لیے آخری دوا کی ضرورت پڑ جائے اور الله نہ کرے انسان کچھ مدت کے لیے جہنم چلا جائے اور آگ میں جلے تا کہ اخلاقی برائیوں، روحانی آلودگیوں اور گندی شیطانی صفات سے پاک ہو اور جَنّاتٍ تَجْری مِن تَحتها الاَنهارُ (سوره بقرة: 25) یعنی “ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں” سے بہره مند ہونے کی صلاحیت پیدا کر لے.
البتہ یہ صورتحال ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گناه اور نافرمانی کا دائره اتنا زیاده نہیں ہوا ہے کہ الله تعالی کی رحمت اور عنایت مکمل طور پر ان سے سلب ہو جائے اور وه اب بھی ذاتی طور پر جنت میں جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں.
خدا نہ کرے کہ انسان گناہوں کی کثرت کی وجہ سے الله کی بارگاه سے مسترد کر دیا جائے اور اس کی رحمت سے محروم ہو جائے کیونکہ اس صورتحال میں ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنے کے علاوه کوئی اور نتیجہ اس کے انتظار میں نہ ہو گا۔
ڈریں اس بات سے کہ خدا نخواستہ الله تعالی کی رحمت اور عنایت سے محروم ہو جائیں اور الله تعالی کے غضب و غصے اور عذاب کا شکار ہو جائیں.
آپ کے اعمال، کردار اور گفتار ہرگز ایسے نہ ہوں کہ وه آپ کی توفیقات کو سلب کر لیں اور آپ کے لیے ہمیشہ جہنم میں رہنے کے علاوه کوئی راستہ نہ بچے.
آپ ابھی ایک گرم پتھر کو بھی ایک منٹ کے لیے اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھ سکتے! جہنم کے کی آگ سے دوری کریں!
غیرِ خدا کی طرف توجہ انسان کو “تاریک” اور “نورانی” پردوں میں چھپا لیتی ہے.
کوئی بھی دنیاوی کام جو انسان کو دنیا کی طرف متوجہ اور الله تعالی سے غافل کر دے تو وه انسان کے لیے تاریک پردوں کو فراہم کرتا ہے.
تمام تر جسمانی عالَم تاریکی کے پردے ہیں.
اور اگر دنیا خدا کی طرف توجہ اور آخرت تک پہنچنے کا وسیلہ ہو جو عزت و احترام کا گھر ہے تو تاریک پردے نورانی پردوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں؛
جبکہ مکمل طور پر الله تعالی کی طرف مکمل طور پر مائل ہونے سے مراد یہ ہے کہ تمام تاریک اور نورانی پردوں کو چیر کر راستے سے ہٹا دیا جائے تا کہ الہی مہمانی میں داخل ہو سکیں جو عظمت کا خزانہ ہے.
حتّی تَخْرِقَ اَبصارُ القلوبِ حُجُبَ النّور، فَتَصلَ الی معدنِ العَظَمَة (دعائے شعبانیہ) یعنی “تا کہ ہمارے دل کی آنکھیں نوارنی پردوں کو چیر کر براه راست (تیری عظمت و بزرگی کے) خزانے تک پہنچ جائیں”.
وه شخص جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس دن سے جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے اس مادی تاریک دنیا کے علاوه کسی بھی چیز کی طرف توجہ نہیں کرتا اور کبھی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ممکن ہے اس آلوده اور تاریک دنیا کے علاوه بھی کوئی اور جگہ اور منزل موجود ہو، وه تاریک پردوں کی گہرائی میں چلا گیا ہے اور “اَخْلَدَ الی الاَرضِ و اتَّبَعَ هواه” (سوره اعراف: 176) یعنی “وه پستی کی طرف گیا اور اس نے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی” کا مصداق بن گیا ہے.
وه شخص اس گناه آلود دل کے ساتھ تاریک پردے میں چھپ گیا ہے اور اس کی افسرده روح جو گناہوں کی کثرت کی وجہ سے الله تعالی سے دور ہو گئی ہے،
ان نفسانی خواہشات کی پیروی اور دنیا طلبی نے اس کی عقل اور حقیقت کو دیکھنے والی آنکھ کو اندھا کر دیا ہے اور وه تاریک پردوں سے خود کو نجات نہیں دے سکتا ہے تو پھر نورانی پردوں کو چیر کر صرف الله تعالی کی طرف خالص میل (انقطاع الی الله) تک پہنچنے کی بات تو چھوڑ ہی دیں!
مردوں کو غسل دینے والا مردوں سے نہیں ڈرتا کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ مرده تکلیف پہنچانے پر قادر نہیں ہے؛ جب وه زنده تھا اور روح اس کے بدن میں تھی وه تب بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا تو اب کیا کر سکتا ہے جب اس کا بدن روح سے خالی ہو چکا ہے؛ لیکن وه لوگ جو مردوں سے ڈرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وه صرف اس حقیقت کا علم رکھتے ہیں لیکن اس پر ایمان نہیں رکھتے.
وه خدا اور قیامت کا علم رکھتے ہیں لیکن یقین نہیں رکھتے. وه چیز جسے عقل نے سمجھ لیا ہے دل اس سے بے خبر ہے.
دلیل کی وجہ سے جانتے ہیں کہ خدا ہے، قیامت ہے لیکن ممکن ہے کہ یہی عقلی دلیل دل کے لیے پرده بن کر اجازت نہ دے کہ ایمان کا نور دل پر چمکے تا کہ الله تعالی اسے تاریکیوں سے نکال کر عالمِ نور میں داخل کر دے: “الله ولیُّ الَّذینَ آمنوا یُخرِجُهُم مِنَ الظُّلُماتِ اِلَی النّور” یعنی “اللہ صاحبانِ ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے”؛
اور وه شخص جس کا ولی الله تعالی ہو اور وه اسے تاریکیوں سے نکال دے تو پھر وه گناه انجام نہیں دیتا؛ غیبت نہیں کرتا؛ تہمت نہیں لگاتا؛ اپنے ایمانی بھائی سے حسد اور کینہ نہیں رکھتا؛ اور اپنے دل میں نورانیت کا احساس کرتا ہے؛ اور دنیا اور جو کچھ اس میں ہے انہیں اہمیت نہیں دیتا.
جیسے کہ امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: “اگر مجھے چیونٹی کے منہ سے جو کے چھلکے کو ظلم کے عنوان سے اور عدالت کے برخلاف چھیننے پر پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ مجھے دے دیں تب بھی میں ہرگز یہ کام نہیں کروں گا”.
“عصمت” ایمان کے بغیر کامل نہیں ہوتی؛
انبیاء (ع) اور اولیاء کی عصمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مثلاً حضرت جبرائیلؑ ان کا ہاتھ روک لیتے ہیں … بلکہ عصمت ایمان سے وجود میں آتی ہے.
اگر انسان الله تعالی پر ایمان رکھتا ہو اور اپنے دل کی آنکھوں سے اسے دیکھے تو ممکن نہیں ہے کہ وه گناه انجام دے!!
آپ کب تک خواب غفلت کا شکار رہنا چاہتے ہیں؟! کب تک فساد اور تباہی میں ڈوبے رہنا چاہتے ہیں؟! الله سے ڈریں، کاموں کے انجام سے ڈریں، خواب غفلت سے بیدار ہوں.
آپ اب تک نہیں جاگے! ابھی تک پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا! سیروسلوک کا پہلا قدم “بیداری” ہے لیکن آپ سو رہے ہیں! آنکھیں کھلی ہیں لیکن دل خواب میں غرق ہیں.
اگر دل خواب کا شکار اورگناہوں کی وجہ سے سیاه نہ ہو گئے ہوتے اور ان پر زنگ نہ لگ گیا ہوتا تو اپنے برے اعمال اور بری باتوں کے حوالے سے اس طرح کی لا تعلقی اور آرام و سکون کو جاری نہیں رکھتے.
اگر تھوڑا سا بھی آخرت کے امور اور اس کے ہولناک انجام کے بارے میں سوچتے تو اپنے کاندهوں پر موجود سنگین ذمہ داریوں کو زیاده اہمیت دیتے.
آپ کے لیے دوسرا جہان بھی ہے، قیامت بھی درپیش ہے، کیوں عبرت نہیں لیتے؟! کیوں بیدار اور ہوشیار نہیں ہوتے؟!
کیوں اتنی آسانی سے دوسرے مسلمان بھائیوں کی غیبت اور ان کے بارے میں برا بھلا کہتے ہیں یا سنتے ہیں؟!
کچھ آپ متوجہ بھی ہیں کہ یہ جو زبان غیبت کے لیے چلاتے ہیں قیامت میں دوسروں کے پیروں تلے روندی جائے گی؟!
کیا آپ جانتے ہیں الغِیبة اِدامُ کِلاب النّار (امیرالمؤمنین امام علیؑ، بحار الأنوار : 75/248/13) یعنی “غیبت جہنم کے کتوں کا کھانا ہے”.
کیا آپ نے سوچا بھی ہے کہ ان اختلافات، دشمنیوں، حسد، دوسروں کے بارے میں برا سوچنا، خود غرضیاں اور غرور و تکبر کا نتیجہ کیا ہے؟!
آیا آپ جانتے ہیں کہ ان پست اور حرام کاموں کا انجام جہنم ہے؟! اور ممکن ہے کہ ان کاموں کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے آگ میں رہنا ہو؟!
خدا نہ کرے کہ انسان بغیر درد کی بیماریوں میں مبتلا ہو.
وه امراض جن میں درد ہو وه انسان کو مجبور کر دیتے ہیں کہ اپنا علاج کروایا جائے، ڈاکٹر اور ہسپتال کا رخ کیا جائے؛ لیکن ایک ایسی بیماری جس میں درد نہ ہو اور وه بیماری محسوس نہ ہوتی ہو تو وه انتہائی خطرناک ہوتی ہے. انسان کو جب پتہ چلتا ہے تو پھر کچھ نہیں کیا جا سکتا!
اگر روحی بیماریوں میں درد محسوس ہوتا تو یہ شکرگذاری کا مقام تھا کیونکہ بالآخر انسان کو علاج کی طرف مجبور کرتیں.
لیکن کیا کیا جا سکتا ہے کہ ان خطرناک بیماریوں میں درد نہیں ہوتا. #غرور اور #خود_غرضی کی بیماریاں ایسی ہی ہیں.
یہ بیماریاں جو انسان کی قلب و روح کو فاسد کر دیتی ہیں نہ صرف ان میں درد نہیں ہوتا بلکہ ظاہری طور پر مزے دار بھی ہوتی ہیں. ایسی محفل جس میں #غیبت ہو بہت گرم محفل ہوتی ہے!
دنیا_اور_اپنے_نفس_کی_محبت جو تمام گناہوں کی جڑ ہے وه انسان کے لیے لذت بخش ہے.
پیاس کی بیماری میں مبتلا شخص پانی پی پی کر ہلاک ہو جاتا ہے لیکن آخری سانس تک پانی پینے سے لطف اندوز ہوتا ہے؛
اور قدرتی طور پر اگر انسان کسی بیماری سے لطف اندوز ہونا شروع ہو جائے اور اس بیماری میں درد بھی نہ ہو تو اس کا علاج نہیں کروائے گا اور جتنا بھی اسے خطرے سے آگاه کیا جائے کہ یہ بیماری نابود کر دینے والی ہے، وه یقین نہیں کرے گا.
اگر انسان دنیاپرستی اور ہوا و ہوس کی بیماری میں مبتلا ہو جائے اور دنیا کی محبت اس کے دل میں سما جائے تو وه دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس کے علاوه ہر چیز سے بیزار ہو جاتا ہے؛
اور (خدا کی پناه کہ) وه الله، اس کے بندوں، اس کے اولیاء اور اس کے ملائکہ سے بھی دشمنی کرنے لگتا ہے اور ان سے کینے اور دشمنی کا احساس کرتا ہے؛
اور پھر جب فرشتے خدا کے حکم سے اس کی جان نکالنے آتے ہیں تو سخت نفرت اور بیزاری کا احساس کرتا ہے؛ کیونکہ وه دیکھ رہا ہوتا ہے کہ الله تعالی اور اس کے فرشتے اسے اس کے محبوب (یعنی دنیا اور دنیاوی معاملات) سے جدا کرنا چاہتے ہیں؛
اور ممکن ہے کہ وه خداوند عالم سے دشمنی کی حالت میں اس دنیا سے جائے!
کوشش کریں کہ اگر آپ دنیا سے محبت، تعلق اور ارتباط رکھتے ہیں تو اسے ختم کر دیں.
یہ دنیا اپنی تمام تر ظاہری چمک دمک کے باوجود اس سے کم تر حیثیت کی حامل ہے کہ محبت کیے جانے کے قابل ہو، البتہ اگر انسان یہی ظاہری چیزیں بھی نہ رکھتا ہو تو پھر (یہ محبت) اور بھی عجیب بات ہے،
… یہ جلد گذر جانے والی ظاہری زندگی (اس شرط کے ساتھ کہ انسان کی خواہشات کے مطابق گذرے) نامحدود عذاب کے مقابلے میں کیا اہمیت رکھتی ہے؟!
اگر آپ اپنی نیت کو خالص کر لیں، اپنے عمل کو صالح بنا لیں، خودپسندی اور پوسٹ اور بڑا مقام حاصل کرنے کی خواہش کو دل سے نکال باہر کریں تو بلند درجات اور عالی مقامات آپ کے لیے مہیا ہیں.
وه مقام جو الله تعالی کے صالح بندوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے وه پوری دنیا اور جو کچھ بھی اس میں ہے، اپنے ان بناوٹی جلووں کے ساتھ، اس کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے. کوشش کریں کہ ایسے عالی مقامات تک پہنچیں؛
اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو اپنے آپ کو (روحانی لحاظ) سے اتنا بنائیں اور اتنی ترقی دلوائیں کہ ان عالی درجات کی فکر میں بھی نہ رہیں اور ان مقامات تک پہنچنے کے لیے بھی خدا کی عبادت نہ کریں بلکہ اس لیے کہ وه عبادت اور کبریائی کا سزاوار ہے، اسے پکاریں، اس کے سامنے سجده کریں اور اپنا سر خاک پر رکھ دیں.
یہ وه مقام ہے کہ جہاں آپ “نور کے پردے” کو چاک کر کے “عظمت کے خزانے” تک پہنچ گئے ہیں.
کیا آپ اپنے ان اعمال و کردار کے ساتھ، اس راه کے ساتھ جس پر چل رہے ہیں، اس طرح کے مقام کو حاصل کر سکتے ہیں؟!
آپ جو کہ ابھی جوان ہیں، جوانی کی طاقت رکھتے ہیں، اپنی مختلف قوتوں پر کنٹرول رکھتے ہیں اور ابھی تک جسمانی کمزوری آپ پر غالب نہیں آ سکی ہے، اگر آپ تزکیہ نفس اور اپنی شخصیت کی تعمیر کی طرف متوجہ نہیں ہونگے تو پھر کس طرح اس وقت اپنے آپ کو بنا سکیں گے اور اپنی تہذیب نفس کر سکیں گے جب بڑھاپے میں کمزوری، سستی اور بے حالی آپ کے جسم و جان پر غالب آ جائے گی اور آپ اراده کرنے، فیصلہ کرنے اور مزاحمت کرنے کی طاقت کو کھو چکے ہونگے اور گناه دل کو مزید سیاه کر چکے ہونگے؟!
آپ ہر سانس جو لیتے ہیں، ہر قدم جو اٹھاتے ہیں اور آپ کی زندگی کے گزرنے والے ہر لمحے سے اصلاح کا عمل مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے اور ممکن ہے کہ تاریکی اور سیاہی بڑھ جائے.
جتنی عمر زیاده ہوتی چلی جاتی ہے، اتنا ہی یہ انسانی سعادت کے منافی چیزیں بڑهتی چلی جاتی ہیں اور طاقت کم تر ہوتی جاتی ہے.
لہذا جب آپ بوڑھے ہو گئے تو پھر مشکل ہے کہ اپنی تہذیب نفس کر سکیں اور فضیلت و تقوی کو حاصل کر سکیں. پھر اس وقت آپ توبہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ توبہ “أتوب الی الله” کے لفظ ادا کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ توبہ کے لیے شرمندگی اور (برے کاموں اور عادتوں کو) ترک کرنے کا عزم بھی ضروری ہے.
مہمان کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم میزبان کو پہچانے اور اس کے مقام و منزلت کی معرفت رکھتا ہو، ساتھ ہی ساتھ محفل کے آداب و رسوم کو جانتا ہو اور اس کی کوشش ہو کہ اس سے ایسا کوئی کام انجام نہ پائے کہ جو مہمانی کے اخلاق اور آداب کے خلاف ہو.
(اسی طرح) الله تعالی کے مہمان کے لیے ضروری ہے کہ وه خدائے ذوالجلال کے خدائی مقام کو پہچانتا ہو، وه مقام جس کی مزید اور مکمل شناخت کے لیے آئمہؑ اور اور بڑے انبیاءؑ الہی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں اور ان کی آرزو تھی کہ وه ایسے نور کے خزانے اور عظمت کی معرفت حاصل کر لیں.
و اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضیاءِ نَظَرِها اِلیک حتّی تَخْرِقَ اَبصارُ القُلوب حُجُب النّور فَتَصِلَ الی مَعدنِ العَظَمة (مناجات شعبانیہ) یعنی “اور ہمارے دل کی آنکھوں کو اپنی طرف دیکھنے کے نور سے روشنی عنایت فرما تا کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو چیر دیں اور تیری عظمت کے خزانے سے متصل ہو جائیں”،
الله تعالی کی مہمان نوازی وہی #عظمت_کا_خزانہ ہے، الله تعالی نے نور اور عظمت کے خزانے میں وارد ہونے کے لیے اپنے بندوں کو دعوت دی ہے لیکن اگر انسان اس کے قابل نہ ہو تو ایسے عظیم الشان اور محترم مقام میں وارد نہیں ہو سکتا.
خداوندِ عالَم نے اپنے بندوں کو تمام خوبیوں، اچھائیوں اور بہت سی روحانی لذتوں کی طرف دعوت دی ہے لیکن اگر بندے اس طرح کے عالی مقامات میں حاضر ہونے کی آمادگی نہ رکھتے ہوں تو وه داخل نہیں ہو سکتے.
#روحانی آلودگیوں، #اخلاقی_پستیوں، #قلبی_اور_جسمانی_گناہوں کے ساتھ کس طرح ممکن ہے کہ الله کے محضر میں حاضر ہوں اور رب الارباب کے مہمان خانے میں داخل ہوں جو کہ “عظمت کا خزانہ” ہے، اس کے لیے انسان کا قابل ہونا ضروری ہے، آمادگی ضروری ہے. روسیاہیوں اور آلوده دلوں کے ساتھ جو تاریک پردوں میں چھپے ہیں، ان روحانی حقائق اور مطالب کو درک نہیں کیا جا سکتا.
ضروری ہے کہ یہ پردے چیرے جائیں اور دلوں پر پڑے یہ تاریک اور نورانی پردے جو الله تعالی کے وصال کی راه میں رکاوٹ ہیں، دور چلے جائیں تا کہ #نورانی_اور_عظیم_الشان_الہی_محفل میں وارد ہوا جا سکے.
یہ آنکھیں اور کان جن پر آپ کا اختیار ہے، یہ ہاتھ اور زبان جو آپ کی مرضی سے کام کرتے ہیں، یہ اعضاء اور جوارح جن کے ذریعے آپ زندگی گزارتے ہیں، یہ سب الله تعالی کی امانتیں ہیں جو مکمل پاکیزگی اور مکمل صحت کی حالت میں آپ کو دیے گئے ہیں،
اگر یہ گناه میں مبتلا ہو جائیں تو آلوده ہو جاتے ہیں، خدانخواستہ اگر محرمات سے آلوده ہو جائیں تو پلید ہو جاتے ہیں، اور پھر جب ان امانتوں کو پلٹانے کا وقت آئے گا تو ممکن ہے کہ آپ سے سوال کریں کہ کیا اسی طرح امانتداری کی جاتی ہے؟ کیا ہم نے ان امانتوں کو اسی طرح آپ کے حوالے کیا تھا؟ کیا وه دل جو آپ کو دیا تھا وه ایسا ہی تھا؟ آنکھیں جو آپ کے حوالے کی تھیں ایسی ہی تھیں؟ دیگر اعضاء و جوارح جو آپ کے اختیار میں دیے تھے کیا وه ایسے ہی آلوده اور گندے تھے؟
ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟
الله تعالی کی دی ہوئی امانتوں میں ان خیانتوں کے انجام دینے کے بعد کس طرح اپنے خدا سے ملاقات کریں گے؟!
اگر آپ جوانی میں اپنی اصلاح اور اپنے آپ کو بنانے کی کوشش میں نہیں ہونگے تو پھر بڑھاپے میں کام تمام ہے! جب تک جوان ہیں تو کچھ سوچ لیں، اس بات کی اجازت نہ دیں کہ بوڑھے ہو جائیں اور مرجھا جائیں.
جوان کا دل “لطیف اور آسمانی” ہے جس میں فساد کی جانب رجہان کمزور ہے. لیکن جتنی جتنی عمر بڑھتی جاتی ہے دل میں گناه کی جڑیں مضبوط اور محکم تر ہوتی چلی جاتی ہیں، اس حد تک کہ پھر اسے دل سے اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں رہتا.
جیسے کہ روایت میں وارد ہوا ہے کہ: شروع میں انسان کا دل آئینے کی طرح صاف اور نورانی ہوتا ہے اور انسان سے سرزد ہونے والے ہر گناه سے اس کے دل پر ایک سیاه نکتے کا اضافہ ہو جاتا ہے،
یہاں تک کہ دل کو سیاه کر کے ممکن ہے کہ کوئی ایسی دن اور رات نہ ہو جو اس کے لیے الله تعالی کی نافرمانی کیے بغیر گزرے؛ اور جب وه بوڑها ہو جائے تو پھر مشکل ہے کہ دل کو اپنی پہلی حالت اور صورت پر دوباره پلٹائے.
اگر خدانخواستہ آپ نے اپنی اصلاح نہیں کی اور سیاه دلوں اور گناه آلود آنکھوں، کانوں اور زبانوں کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے تو خدا سے کیسے ملاقات کریں گے؟!
یہ الہی امانتیں جو پوری پاکیزگی اور طہارت کے ساتھ آپ کے حوالے کی گئیں تھیں کو کس طرح آلودگی اور پلیدی کے ساتھ (اس کے) حوالے کریں گے؟!
آپ جوانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنا اراده مضبوط کر لیں تا کہ آپ ہر ظلم و ستم کے خلاف پائداری دکھا سکیں اور اس کے علاوه کوئی چاره نہیں.
آپ کی، اسلام کی، اور اسلامی ممالک کی عزت اس بات سے وابستہ ہے کہ آپ مقابلہ کریں اور پائداری کا مظاہره کریں.
کچھ آیات کی کچھ روایات سے تفسیر کے مطابق انسان کے اعمال رسول خداؐ اور آئمہؑ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور وه ان کی مبارک نظروں سے گزرتے ہیں.
جب وه آپ کے اعمال پر نگاه کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ گناہوں اور خطاؤں سے بھرے ہوئے ہیں تو وه کتنا غمگین اور متأثر ہوتے ہیں؟! پیغمبر اکرمؐ کو غمگین اور متأثر کرنا مت چاہیں. اس بات پر راضی نہ ہوں کہ آپؐ کا مبارک دل ٹوٹے اور غمگین ہو.
جب آپؐ یہ مشاہده کریں کہ:
🔺آپ کے اعمال کا صفحہ کسی مسلمان کے حوالے سے غیبت، تہمت اور بدزبانی سے بھرا ہوا ہے،
🔺اور آپ کی مکمل توجہ دنیا اور مادیت کی طرف ہے،
🔺اور آپ کے دل ایک دوسرے کے حوالے سے بغض، کینے، حسد اور سوء ظنّ سے بھرے ہوئے ہیں،
تو ممکن ہے کہ آپؐ الله تعالی اور اس کے ملائکہ کے سامنے شرمنده ہوں کہ ان کی امّت اور ان کے پیروکار خدا کی نعمتوں کے حوالے سے ناشکرے ہیں اور اس طرح بے لگام اور بے پرواہی کے عالم میں الله تعالی کی امانتوں میں خیانت کرتے ہیں!
کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے انسان سے مربوط ہو اگرچہ اس کا نوکر ہی کیوں نہ ہو، اگر وه کوئی غلط کام انجام دے تو انسان کی شرمندگی کا باعث بنتا ہے.