مصنف
موضوع
میسجز
اگر آپ بینرز کے لیے اعلیٰ کوالٹی کے پوسٹرز چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔
موضوع کی تفصیل
سیریز کے مکمل میسجز
ان چیزوں میں سے ایک جو انسان کے لیے، مرد اور عورت کے لیے گھرانے کو پسندیده بناتی ہے اور ان کے اس سے وابستہ ہو جانے کا باعث بنتی ہے، وه انسانی وجود کے بنیادی ستونوں میں سے ایک اس کی جنسی اور شہوانی ضرورت ہے جو گھرانے کے ماحول میں پوری ہوتی ہے.
اگر مرد اور عورت گھرانے کی حدود سے باہر، معاشرے میں، کام کاج کی جگہ پر، جنسی لذتوں کے حصول کی غیرقانونی جگہوں پر مشغول ہو جائیں تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مرد و زن اور گھرانے میں پایا جانے والا طاقتور جوڑ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور نابود ہو جاتا ہے.
وه مرد جو اپنی شہوانی پیاس کو گھرانے کی حدود سے باہر سیراب کرتا ہے یا وه عورت جو اس طرح کی صورتحال کا شکار ہے، ان کے لیے گھرانے میں کوئی ایسی کشش نہیں بچ جاتی جو ایک پاکیزه اور معصوم عورت اور مرد کو حاصل ہے جن میں مرد اپنی عورت کے علاوه کسی بھی دیگر عورت سے اور عورت اپنے شوہر کے علاوه کسی بھی دیگر مرد سے سروکار نہیں رکھتی.
یہی وجہ ہے کہ جب معاشرے میں فساد رائج ہو جائے اور اس میں جنسی حوالے سے کوئی قاعده قانون موجود نہ ہو تو پھر:
– مرد و عورت گھرانے کی حدود میں کوئی دلچسپی نہیں رکھیں گے،
– اس صورتحال میں جوان گھرانہ تشکیل دینے کی طرف رغبت نہیں رکھے گا،
– لڑکے اور لڑکیاں شادی کرنے میں دلچسپنی نہیں رکھیں گے!! (جاری ہے)
(گذشتہ سے پیوستہ)
… جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ آج کی دنیا میں اور مغربی ثقافت میں یہی داستان جاری ہے. یقینی طور پر یہ ثقافت مغربی ہے جو خبیث اور پلید مغربی سرمایہ داری کے طورطریقوں سے پھوٹی ہے.
لیکن افسوس کے ساتھ یہ پوری دنیا میں حتی غیرسرمایہ داری اور تیسری دنیا کے ممالک میں بھی پھیل گئی ہے اور وہاں ایک ثقافت کے طور پر رائج ہو گئی ہے.
آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ان جگہوں پر لڑکے لڑکیاں ازدواج کی طرف کوئی خاص رغبت نہیں رکھتے. شادی کی عمر بڑی ہو گئی ہے جبکہ اسلام میں شادی کی عمر چھوٹی ہے.
یہ اسی وجہ سے ہے کہ اگر معاشرے میں فساد وجود میں آ جائے تو گھرانہ کمزور ہو جاتا ہے اور اگر گھرانہ مضبوط ہو تو فساد کو معاشرے میں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملتا.
یہ اسلام کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہے کہ معاشرے کی عمومی سطح پر جنسی اور شہوانی حوالے سے مادر پدر آزادی نہ پھیلے. یہ گھرانے کو بچانے کے لیے ایک نکتہ ہے.
گھرانہ آرام و سکون اور آسائش کے ایک مرکز کے طور پر ہر عورت اور مرد کی ضرورت ہے.
دنیا کے کچھ ممالک میں جہاں بہت تیز رفتاری سے علمی اور ثقافتی ترقی ہو رہی ہے، لوگوں پر اس طرح کی زندگی تھونپی گئی ہے کہ گھرانے کے افراد ایک دوسرے سے کوئی خاص سروکار نہیں رکھتے.
باپ کہیں مشغول ہے تو ماں کہیں اور، نہ وه ایک دوسرے سے ملتے ہیں، نہ ایک دوسرے کے لیے کھانا پکاتے ہیں، نہ ایک دوسرے پر محبت اور احساسات نچھاور کرتے ہیں، نہ ایک دوسرے کی دلجوئی کرتے ہیں اور نہ ہی حقیقتاً انہیں ایک دوسرے سے کوئی مطلب ہے.
اس صورتحال میں بچوں کے نفسیاتی ماہرین کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے آپس میں ایک خاص وقت کا تعین کرتے ہیں تا کہ ماں باپ گھر آ جائیں اور ایک گھر یلو محفل سجائیں.
یہ لوگ گھر کے افراد کے اجتماع کو مصنوعی طور پر اپنے لیے ایجاد کرتے ہیں جبکہ ایک صحیح و سالم گھریلو زندگی میں یہ چیز قدرتی طور پر پائی جاتی ہے.
اس صورتحال میں یہ عورت یا وه مرد مسلسل گھڑی پر نگاه رکھتے ہیں کہ کب یہ ٹائم ختم ہو کیونکہ مثلاً 6 بجے انہوں نے کہیں اور ٹائم دیا ہوا ہے. اس طرح تو گھریلو محفلیں برپا نہیں ہوتیں اور اس صورت میں بچے بھی انس کا احساس نہیں کرتے. (جاری ہے)
(گذشتہ سے پیوستہ)
… وہاں گھرانوں میں اتنی اپنائیت نہیں. گھرانوں کی وہاں کوئی حقیقت نہیں.
ایک مرد اور ایک عورت ایک جگہ ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے جدا ہیں.
وه گھریلو اٹھنا بیٹھنا، وه گھریلو محبتیں، وه ایک دوسرے سے شدید انس، مرد کا اپنے آپ کو بیوی کا محتاج پانا اور عورت کا اپنے آپ کو اپنے شوہر کا محتاج دیکھنا، یہ چیزیں اب وہاں نہیں!!
وه دو افراد ہیں جو ایک معاہدے کے طور پر صرف ایک گھر میں زندگی گزار رہے ہیں. اور پھر اس کا نام بھی یہ ہے کہ ان کی زندگی عشق کے ساتھ شروع ہوتی ہے!!
اگر انسان جنسی ضروریات کے حوالے سے کھلے چھوڑ دیے گئے ہوتے کہ جس طرح چاہیں اپنی اس ضرورت کو پورا کریں تو یا تو گھرانہ تشکیل ہی نہیں پاتا یا ایک کمزور، اندر سے خالی، خطروں اور ویرانی کی زد پر موجود ایک چیز ہوتا اور ہر ہوا اسے نابود کر دیتی.
لہذا دنیا میں جہاں بھی آپ جس حد تک جنسی آزادیوں کو مشاہده کرتے ہیں وہاں اسی حد تک گھرانے کمزور ہیں؛ کیونکہ مرد اور عورت کو اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس مرکز کی ضرورت ہی نہیں.
لیکن ان جگہوں پر جہاں دین حاکم ہے اور وہاں جنسی معاملات آزاد نہیں ہیں تو وہاں (یہی گھرانے کا مرکز) ان کے لیے سب کچھ ہے لہذا وہاں اس گھرانے کے مرکز کی حفاظت کی جاتی ہے.
وه صورتحال جو آج مغربی ممالک میں مشاہده کی جا رہی ہے وه ایک بے نام و نشان، بے چاری اور حیران و پریشان نسل کی موجودگی ہے، ایسے ماں باپ جو سالہا سال اپنے بچوں کی خبر تک نہیں لیتے حالانکہ ایک ہی شہر میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور اگر شہر مختلف ہوں تو پھر تو کیا ہی کہنا!
بکھرے گھرانے، تک و تنہا انسان!!!
یورپی اور امریکی ممالک میں … بنا شوہر عورتوں اور بیوی نہ رکھنے والے مردوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جس کا نتیجہ بن ماں باپ کے، آواره اور جرائم پیشہ بچے ہیں. وہاں گناه و جرم کی فضا حاکم ہے.
یہی باتیں جو آپ خبروں میں سنتے ہیں کہ اچانک سے ایک بچہ کسی اسکول میں، کسی روڈ پر یا کسی ریل گاڑی میں قتل کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو مار دیتا ہے. ایسا بھی نہیں کہ ایسے واقعات ایک آدھ دفعہ پیش آئے ہوں.
اسی طرح عمر کے لحاظ سے جرائم کی سطح نیچے آتی جا رہی ہے. پہلے بیس سالہ جوان اس طرح سے تھے، اب 16-17 سالہ جوان بلکہ 13-14 سالہ بچے بھی امریکہ میں جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں. آسانی سے انسان مار دیتے ہیں!
یہ معاشره جب اس حد تک پہنچ جائے تو پھر اسے سنبھالا دینا تقریباً ممکن نہیں.
تہذیب و تمدن کی منتقلی، اس کے بنیادی اصولوں کی ایک معاشرے میں حفاظت اور اسے اگلی نسلوں تک پہنچانا گھرانے کی برکت سے انجام پاتا ہے. اگر گھرانہ نہ ہو تو پھر ہر چیز بکھر جائے گی.
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ مغربی لوگ مشرقی، اسلامی اور ایشیائی ممالک میں شہوت پرستی اور فساد کو رائج کرنے کی اتنی کوشش کرتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کام کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہی ہے کہ وه گھرانوں کو نابود کر دینا چاہتے ہیں تا کہ ان معاشروں کی تہذیب و تمدن کمزور ہو جائے تا کہ پھر وه ان پر مسلط ہو جائیں. کیونکہ جب تک کسی قوم کی تہذیب کمزور نہ ہو تب تک کوئی بھی اس قوم کو مہار نہیں کر سکتا، اس کے منہ میں لگام نہیں ڈال سکتا اور اس کی پشت پر سوار نہیں ہو سکتا.
وه چیز جس نے قوموں کو دفاعی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے اور انہیں غیروں کے ہاتھوں اسیر بنا دیتی ہے وه اپنی تہذیبی شناخت کو کھو دینا ہے. یہ کام معاشرے میں گھرانوں کی بنیاد نابود ہو جانے سے آسان ہو جاتا ہے.
اسلام گھرانوں کو محفوظ دیکھنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ انہیں بچا لے کیونکہ اسلام کے مطابق ان اہداف تک پہنچنے کے لیے اہم ترین کاموں میں ایک کام گھرانے کی تشکیل اور پھر اس کی بنیاد کو محفوظ بنانا ہے.
آپ ملاحظہ کریں کہ آج امریکہ اور انگلینڈ میں همجنس بازی قانونی شکل اختیار کر چکی ہے اور وه شرمنده بھی نہیں ہوتے!!
انہوں نے ایسا کام انجام دیا ہے کہ ہم اسے بیان کرنے میں بھی شرم و حیا کا احساس کرتے ہیں.
ہماری عوام یہ جان لے کہ جب کسی ملک میں دو همجنس افراد قانونی طور پر آپس میں شادی کر سکتے ہیں تو پھر کیا اس معاشرے میں گھرانے کی بنیاد قائم ره پائے گی؟!
آج امریکہ اور یورپ میں عام عوام کی بڑی تعداد (نہ قدرتمند افراد اور میڈیا پرسنز) گھرانے کی بنیاد کمزور پڑ جانے پر دکھ درد کا شکار ہیں.
وہاں کی عورتیں اور مرد ایک حد تک گھرانوں کی نابودی کی وجہ سے افسرده ہیں اور دکھ درد کا شکار ہیں اور یہ چیز روز بہ روز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور یقیناً یہ آخری ضربت ہے!!
گھرانہ انسان کے لیے آرام و سکون کے حصول کی جگہ ہے.
کوئی بھی انسان ایک خوش و خرم اور پرسکون گھرانے کو پائے بغیر انسانی زندگی کے حقیقی مزے اور ذائقے کو نہیں چکھ سکتا.
وه اس بنیادی ترین بنیاد کو نابود کر رہے ہیں.
یہ ہے مغربی تہذیب و تمدن!! ایسی مادر پدر آزادی، ننگی تہذیب اور مرد و زن کے میل جول کا نتیجہ یہی مسائل ہیں!!
وه مقام جہاں ایمان، اسلام، صبر، صداقت اور انسانی و اسلامی و روحانی فضیلتوں کے حصول کے لیے جدوجہد کی بات ہو تو قرآن فرماتا ہے:
إنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ (سوره احزاب: 35) یعنی “بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں”.
اس آیت میں روحانی فضیلتوں کے 10 عناوین ذکر ہوئے ہیں؛ اسلام، ایمان، اطاعت، سچائی، صبر، خضوع و خشوع اور دیگر چیزیں. مرد و زن اس میدان میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندها ملا کر آگے بڑھتے ہیں؛ قرآن دونوں کا تذکره کرتا ہے.
یہ مردپرستی کا بت جو مختلف زمانوں کی جاہلیتوں میں ہمیشہ مردوں کی طرف سے حتی عورتوں کی طرف سے بھی پوجا جاتا تھا، اسلام اسے ان آیات میں پاش پاش کر رہا ہے.
اسلام سیاسی اور اجتماعی میدان میں عورت کے بیعت کرنے کو ایک لازمی اور زنده مسئلے کے عنوان سے متعارف کرواتا ہے!
ماں کا عنوان، بیوی کا عنوان، گھر اور گھرداری کے عناوین انتہائی اہم اور بنیادی عناوین میں سے ہیں.
ضروری ہے کہ ہمارے پاس موجود مختلف منصوبوں میں گھرانے کے عنوان کو بنیاد قرار دیا جائے.
یعنی اگر آپ طب یا کسی بھی دیگر فیلڈ میں سب سے بڑی اسپیشلسٹ بھی بن جائیں لیکن اگر خاتون خانہ نہ ہوں تو یہ آپ کے لیے ایک نقص شمار ہو گا. گھر آپ کے ہاتھ میں ہونا چاہیے؛ بنیادی بات یہی ہے.
اگر ہم ایک ناقص مثال دینا چاہیں تو ضروری ہے کہ شہد کے چھتے میں ملکہ مکھی کی مثال دیں.
گھرانے کا مرکز وه جگہ ہے جہاں انسانی احساسات کو پرورش اور ترقی حاصل ہونی چاہیے. وہاں بچے پیار دیکھیں.
شوہر جو کہ مرد ہے اور مرد قدرتی طور پر عورت کے مقابلے میں (احساسات کے میدان میں) نا پختہ ہے اور وه کسی خاص معاملے میں جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے جس کا مرہم صرف اور صرف اس کی بیوی کی شفقت اور دلجوئی ہے، حتی ماں کی شفقت بھی نہیں بلکہ لازمی طور پر (بیوی کی جانب سے) شفقت.
ایک شادی شده مرد کے لیے اس کی بیوی ایسا کردار ادا کر سکتی ہے جو ایک ماں اپنے چھوٹے بچے کے لیے ادا کرتی ہے، اس بات کو دقیق اور گہری نگاه رکھنے والی خواتین جانتی ہیں.
اگر یہ احساسات ایک مرکزی نکتے کے محتاج نہ ہوں جو کہ گھر کی خاتون اور بیوی ہے تو پھر گھرانہ صرف ایک ایسی ظاہری سی چیز ہو کر ره جائے گا جس کا کوئی مطلب ہی نہ ہو.
عورت کا اصلی کام شوہرداری اور ماں کا کردار ادا کرنا ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی بات عورت کی توہین ہے.
وه اہم ترین کام جو ایک عورت انجام دے سکتی ہے وه ماں کا کردار ہے.
البتہ کچھ معاملات میں ممکن ہے عورتوں کے اجتماعی کام واجب عینی یا واجب کفائی بھی ہوں لیکن ان تمام معاملات میں خواتین کے لیے ضروری ہے کہ ان اجتماعی کاموں کو اپنے مادری کردار کی حفاظت کرتے ہوئے انجام دیں اور ان کے لیے نمونہ عمل حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کی ذات ہو.
ہم اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ ابتدائی طور پر عورت کی سب سے بڑی اور بنیادی ذمہ داری گھر کے محبت بھرے مرکز کو سنبھالنا ہے جسے ہم اپنے معاشرے کی بنیاد سمجھتے ہیں اور یہ کام مرد کے ذمے نہیں بلکہ مرد سے یہ ذمہ داری ادا ہو ہی نہیں سکتی.
ہمارا اعتقاد ہے کہ عورت کو اس طرح خلق کیا گیا ہے جو اسے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے تیار کرتی ہے.
ہم معتقد ہیں کہ اس بات میں عورت کے لیے کوئی فخر نہیں کہ وه وزیر یا وزیراعظم بن جائے بلکہ ایک عورت کے لیے فخر کی بات یہ ہے کہ وه اپنی گھریلو زندگی کے ماحول کو محبت اور الفت کے ساتھ سنبھال سکے.
البتہ اگر اس (اصلی ذمہ داری کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وه) وزیر یا وزیراعظم بھی بن جائے تو پھر اس بات میں کوئی مشکل نہیں اور اس صورت میں اسے دوگنا شرف اور افتخار حاصل ہو جائے گا.
اگر آپ اپنے بچوں کی (تربیت) کے سلسلے میں صحیح طرح سے غوروفکر اور عمل نہ کر سکے تو خدا نخواستہ آپ کے لیے مشکل پیش آ سکتی ہے. اپنے آپ کو کام کاج میں اس طرح غرق نہ کر دیں کہ پھر اپنے بیوی بچوں کے لیے وقت ہی نہ بچے.
میں نے کئی دفعہ دوستوں سے تاکید کی ہے اور پھر سے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کے لیے وقت نکالیں اور یہ جان لیں کہ جوان اپنے دل کی نورانیت اور پاکیزگی کی وجہ سے آپ کی بات کو قبول کریں گے.
آپ کے پاس صرف کچھ معقول اور منطقی باتیں ہونی چاہئیں جسے اپنے بچوں کے سامنے بیان کر سکیں. اب موضوع کچھ بھی ہو سکتا ہے جو آپ کی نظر میں اہم ہو جیسے دین … یا ہر روز طرح طرح کے نئے نئے عناوین کے بارے میں آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہو.
«قوا انفسکم و اهلیکم نارا وقودها الناس والحجاره» (سوره تحریم: 6) یعنی “ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے”. اپنے آپ کی، اپنے اہل کی حفاظت کریں. یہ انتہائی اہم بات ہے. خود اپنے لیے اور ان کے لیے بصیرت ایجاد کریں.
میں نے کئی دفعہ امیرالمؤمنینؑ کے قول سے خطبوں میں اور دیگر جگہوں پر عرض کیا ہے کہ جنگ صفین میں جب وه واقعات پیش آئے تو آپؑ کے فرامین میں سے ایک یہ فرمان بھی تھا: «الا و لا یحمل هذا العلم الا اهل البصیره و الصبر» (نہج البلاغہ، خطبہ 173) یعنی اس پرچم کو نہیں اٹھا سکتا مگر وه جو بصیرت اور استقامت رکھتا ہو. بصیرت اور ثابت قدمی دونوں لازمی ہیں!
اگر آپ اسلامی تعلیمات کو ملاحظہ کریں تو عورت کے بارے میں دیکھیں گے کہ وہی حقیقی باتیں موجود ہیں:
المرأة ریحانة یعنی “عورت پھول ہے”؛
انسان پھول کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ پھول کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہوتا ہے؟ اگر پھول کے ساتھ کشتی لڑیں گے تو وه پارا پارا ہو جائے گا.
اگر پھول کو پھول سمجھا جائے اور اس کے ساتھ پھول والا سلوک کیا جائے تو وه زینت کا باعث بنے گا اور مؤثر ہو گا، اس کا وجود عالی اور نمایاں ہو گا.
اسلامی لحاظ سے مرد کی ذمہ داری ہے کہ گھرانے میں عورت کا پھول کی طرح خیال رکھے.
«المرأة ریحانة» عورت پھول ہے. یہ فرمان سیاسی، اجتماعی، تحصیل علم اور مختلف قسم کی اجتماعی اور سیاسی جدوجہد کے میدانوں کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک گھرانے کے اندر کی بات ہے.
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عورتوں کی محرومیت اسے بڑے اور مشہور قسم کے کاموں کا نہ ملنا ہے.
جی نہیں! عورت کی مشکل یہ نہیں.
حتی وه عورت بھی جو کسی بڑی ملازمت پر ہے اسے بھی:
– گھر میں ایک پرامن ماحول،
– ایک مہربان اور محبت کرنے والے شوہر،
– اور روحی و احساساتی حوالے سے ایک قابل اعتماد سہارے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو اس کا شوہر ہے.
یہ عورت کی روحی اور احساساتی ضرورت ہے اور لازمی طور پر اس کی یہ ضرورت پوری ہونی چاہیے.
اسلام کی نگاه میں گھرانہ ایک بہت بڑا ستون ہے.
اگر گھرانہ ہو، صحیح و سالم ہو اور تربیت یافتہ ہو تو وه معاشرے کی ترقی میں اس طرح جیسے کہ اسلام چاہتا ہے بہت زیاده اثرانداز ہو گا. اسلام چاہتا ہے کہ یہ مرکز تشکیل پائے اور وجود میں آئے.
ادیان کا کمال، اور ان میں بھی خاص طور پر اسلام کا کمال یہ ہے کہ اس نے انسان کی “جنسی ضروریات” اور “جیون ساتھی پانے کی ضرورت” کے حصول کو گھرانے کے تشکیل پانے کی راه میں معاون قرار دیا ہے.
اسلام نے یہ ایک ایسا کام کیا ہے کہ گھرانے کے مرکز کے قائم ہونے اور اس کے قائم رہنے کو اسی جنسی ضرورت اور اس سے بھی زیاده ضروری جیون ساتھی کے حصول کی خواہش کی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے.
ممکن ہے کچھ لوگ ایک خاص عمر میں پہنچ کر جنسی ضروریات نہ رکھتے ہوں لیکن پھر بھی جیون ساتھی کے طلبگار ہوتے ہیں اور اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ وه اپنی مخالف جنس سے میاں یا بیوی رکھتے ہوں. اور اس معاملے میں مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں. گھر انسان کے آرام و سکون کا ذریعہ ہے.
شادی میں اصل بات مادّی نہیں بلکہ اصل بات اس میں موجود انسانیت کا پہلو ہے.
اسلام نے شادی میں حق مہر قرار دیا ہے لیکن یہ حق مہر ایک خریدوفروخت کے عنوان سے نہیں ہے.
یہ کاروبار کی جگہ نہیں ہے بلکہ دونوں طرف مل کر ایک جگہ سرمایہ کاری کرتے ہیں.
یہ اس طرح کی بات نہیں کہ خرید و فروخت کی طرح ایک چیز دیں اور ایک چیز لیں. نہیں، یہ کسی چیز کے لینے اور کسی چیز کے دینے کی جگہ نہیں بلکہ دونوں افراد اپنی (زندگی کے) سرمائے کو ایک اکاؤنٹ اور ایک مشترک صندوق میں رکھتے ہیں اور پھر دونوں اس سے استفاده کرتے ہیں. ازدواج میں معاملہ اس طرح سے ہے.
ضروری ہے کہ شادی میں مادّیات کو زیاده اہمیت نہ دی جائے. یہ جو ہم کہتے ہیں کہ حق مہر بہت بھاری بھرکم نہ ہو تو اس کی یہی وجہ ہے.
اگر ہم نے یہ کہا ہے کہ حق مہر فلاں مقدار سے زیاده نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر اس سے زیاده ہوا تو نکاح باطل ہو جائے گا یا یہ کوئی حرام کام ہے؛ نہیں، جائز تو ہے لیکن ایک غلط کام ہے.
کچھ لوگ بہت ہی زیاده حق مہر رکھتے ہیں یعنی ازدواج جو کہ ایک انسانیت کا پہلو رکھنے والی چیز ہے اسے ایک کاروبار اور خریدوفروخت کے معاملے میں تبدیل کر دیتے ہیں.
یہ ازدواج میں موجود انسانیت کے پہلو کی توہین اور تحقیر کرنا ہے. یہ ایک غلط کام ہے.
ازدواج کی بنیاد لڑکے اور لڑکی کا آپس میں اچھا رابطہ ہے، ضروری ہے کہ وه آپس میں بنا کر رکھیں.
یہ “آپس میں بنا کر رکھیں” والی بات بہت گہرا مطلب رکھتی ہے.
ایک دفعہ میں امام خمینیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وه نکاح کا خطبہ پڑھنے والے تھے. جب انہوں نے مجھے دیکھا تو کہا کہ آپ آؤ اور سامنے والوں کی طرف سے عقد پڑھو. امام خمینیؒ ہماری عادت کے برخلاف کہ ہم پہلے دیگر باتیں بیان کرتے ہیں اور پھر نکاح پڑھتے ہیں، آپ پہلے عقد پڑھتے تھے اور پھر دو تین مختصر جملے بیان کرتے تھے.
میں نے دیکھا کہ نکاح پڑھنے کے بعد آپ نے لڑکے اور لڑکی کی طرف دیکھا اور کہا: “جاؤ اور آپس میں بنا کر رہو”. میں نے سوچا اور دیکھا کہ ہم اتنے زیاده مطالب بیان کرتے ہیں لیکن امام خمینیؒ کا کلام صرف اسی ایک جملے میں خلاصہ ہوتا ہے کہ “جاؤ اور آپس میں بنا کر رہو”.
اب ہم بھی آپ بیٹوں اور بیٹیوں سے عرض کرتے ہیں کہ جائیں اور آپس میں بنا کر رہیں. آپس میں صلح و دوستی اصلی چیز ہے.
لازمی طو پر ہر وه چیز جو لڑکے اور لڑکی، داماد اور بہو، میاں اور بیوی کے اچھے تعلقات کے راه میں رکاوٹ ہو تو اسے ایک اجنبی چیز کے طور پر پہچانا جانا چاہیے.
اسے بنیادی اصول قرار دیں تا کہ ان شاءالله خداوند اپنی برکتیں آپ پر نازل فرمائے.
میرے ذہن میں شادی کے حوالے سے موجود معیارات ان معیارات سے بہت مختلف نہیں ہیں جو ہمارے مذہبی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں.
میں کچھ معیاروں کے انکار پر تاکید کرتا ہوں یعنی جس چیز پر میں زیاده تاکید کرتا ہوں وه معیارات پر قائم ایک چار دیواری نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام نے میدان کھلا رکھا ہے البتہ ساتھ ہی ساتھ اخلاقی اقدار کو سب سے زیاده اہمیت دی ہے لیکن لوگوں کو اسی چار دیواری میں مکمل طور پر محدود نہیں کیا ہے اور ممکن ہے میں مثال بھی عرض کروں.
لہذا میں معیاروں کے تعین پر بہت زور نہیں دیتا بلکہ کچھ معیاروں کی نفی پر تاکید کرتا ہوں.
پیسے والا ہونا:
مختلف معیاروں میں سے ایک معیار جس کا میں شدت سے انکار کرتا ہوں وه مال و دولت کا مسئلہ ہے.
جب ایک جوان شادی کرنا چاہتا ہے، اب چاہے وه لڑکا ہو یا لڑکی، اسے سامنے والے کی دولت پر بالکل بھی توجہ نہیں کرنی چاہیے. میرے خیال سے یہ ایک گمراه کننده جاذبیت ہے نہ حقیقی جاذبیت.
لہذا اس بات کو مدنظر نہیں رکھنا چاہیے جیسے کہ خود ہمارے بارے میں بھی ایسے ہی تھا اور ہم نے اپنے بچوں کے حوالے سے بھی اس بات کو بالکل اہمیت نہیں دی.
گذشتہ نکات کے بیان کے بعد ممکن ہے کہ ایک لڑکی یا لڑکا اس بات کی طرف مائل ہو کہ اس کا شریک حیات لازمی طور پر اعلی تعلیم یافتہ ہو جبکہ ہو سکتا ہے کوئی اور اس بات کو اہمیت نہ دے.
میں یہ مثال دے رہا ہوں تا کہ معلوم ہو کہ مثبت اور قابل قبول معیار کم نہیں ہیں.
یا فرض کریں کہ کوئی ملک کے کسی خاص حصے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ شریک حیات بھی وہیں سے ہو؛ یعنی ان معاملات میں کوئی رکاوٹ نہیں.
کچھ لوگوں کا دل چاہتا ہے کہ ان کا شریک حیات لازمی طور پر کوئی ایسا ہو جس نے راهِ خدا میں کچھ کام کیا ہو، جدوجہد کی ہو، زخمی ہوا ہو، شہدا کے خاندان سے ہو اور اسی طرح کی دیگر باتیں. جبکہ بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو اپنے معیارات میں شامل نہیں کرتے.
میں اسی لیے مثبت معیارات کی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرنا چاہتا تا کہ محدودیت ایجاد نہ ہو.
میں صرف ان منفی نکات کی طرف اشاره کرنا چاہتا ہوں (جو پچھلے میسجز میں بیان ہوئے). البتہ ہم نے خود اپنے بچوں کے حوالے سے ان چیزوں کی طرف زیاده توجہ دی تھی.
اے جوانوں! شادی کے لیے جلدی کرو.
اے والدین! جو لڑکیاں اور لڑکے شادی کے لیے آماده ہیں آپ ان کی شادی کروائیں. اتنی قیدیں اور شرطیں نہ لگائیں.
اے لڑکیوں کے والد! لڑکیوں کو پیسے والے، بڑے گھرانوں والے، کام کاج والے اور بڑے نامدار اور مشهور لڑکوں کے لیے سنبھال کے نہ رکھیں.
اگر آپ دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان اور مومن جوان ہے، لڑکی اور لڑکا دونوں مسلمان ہیں، ہم کفو ہیں تو ان کی شادی کی ضروریات کو فراہم کریں. شادی کی راه میں اتنے روڑے نہ اٹکائیں.
اے لڑکوں کے والد! خاص طور پر لڑکوں کی مائیں! اور خود وه لڑکے جو داماد بننا چاہتے ہیں! شادی کرنے میں اسلامی معیارات کو اہمیت دیں.
اے والدین! آپ شادی کے معاملے میں الله کا تقویٰ اختیار کریں.
قرآن اس بات پر کتنا زور دیتا ہے، اسلام کتنا زیاده زور دیتا ہے کہ بھاری بھرکم حق مہر قرار نہ دیں، بہت زیاده جہیز کے پیچھے نہ پڑیں، شہرت اور بڑے کام اور پوسٹ کے پیچھے نہ جائیں.
مسلمان لڑکا، مسلمان لڑکی، دونوں اسلامی معرفت رکھنے والے، دونوں ایمانی دل رکھنے والے، یہ دونوں ایک دوسرے کے کُفو ہیں. اجازت دیں کہ وه دونوں اپنی مشترکہ زندگی کا آغاز کریں.
میرے پاس اسی حوالے سے کتنا زیاده رابطہ کیا جاتا ہے، جوان، لڑکے، لڑکیاں مسلسل ایسے سختی کرنے والے گھرانوں کے حوالے سے گلہ شکوه اور شکایت کرتے رہتے ہیں. خاص طور پر کچھ لڑکیوں کے والدین.
میں اس مقدس موقع پر، اس مقدس موضوع پر، اس عظیم اور بہت بڑے مجمع کے سامنے، نماز جمعہ کے خطبے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ الله کے حکم کی طرف پلٹ آئیے، وه جو کچھ خدا نے کہا ہے اسے معتبر سمجھیں!
میں اس بات کو ضروری سمجھتا ہوں کہ بیٹے اور بیٹی کی پسند اور ذوق و سلیقے کا خیال رکھا جائے. میں حقیقتاً اس بات کو شرط سمجھتا ہوں.
اگرچہ لڑکی کا راضی ہونا اور لڑکے کا راضی ہونا نکاح کے صحیح ہونے کی شرط ہے لیکن شرعی قوانین کی فضا میں ان کا راضی ہونا ایک اور چیز ہے جبکہ نکاح کے انجام پانے کے لیے میں جس شرط کو بیان کرنا چاہتا ہوں وه کوئی اور چیز ہے.
میرا دل چاہتا ہے کہ فضا ایک ایسی فضا ہو کہ لازمی طور پر ان کے درمیان محبت پیدا ہو یعنی محبت کے بغیر یہ کام بالکل بھی انجام نہ پائے. نہ یہ کہ ہم یہ کہیں کہ لازمی طور پر شادی سے پہلے محبت ہو، نہیں! میں یہ نہیں کہہ رہا، لیکن کلی طور پر پسندیدگی موجود ہو، وه لڑکی بھی اس لڑکے کو پسند کرے اور وه لڑکا بھی اس لڑکی کو پسند کرے اور یہ پسندیدگی ایک پائدار محبت کے ایجاد ہونے کا گراؤنڈ فراہم کرے.
البتہ محبت قابل زوال بھی ہے اور اسی مزید گہرا بھی کیا جا سکتا ہے. یہ کام خود انسان کے ہاتھ میں ہے.
وه کام جو الله تعالی نے انسان کے پیچیده وجود کے ساتھ انجام دیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے بڑی حد تک محبت کرنے کا اختیار انسان کو عطا کیا ہے.
یہاں ہم ان محبتوں کے ذکر کو نظر انداز کرتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وه اختیاری نہیں اور شعراء نے بھی اس حوالے سے بہت زیاده مطالب بیان کیے ہیں اور جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وه انسانی وجود کے استثنائات میں سے ہیں،
لیکن اصول یہ ہے کہ ایسے دو افراد جن کے درمیان کچھ محبت موجود ہو وه آسانی کے ساتھ اس محبت کی آبیاری کر سکتے ہیں، اسے پروان چڑها سکتے ہیں اور اسے بڑھا سکتے ہیں. بہرحال یہ ایک ضروری چیز ہے.
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قابل ہونے کو ثابت کریں.
– کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ اس عظیم شخصیت کا جہیز وه چیزیں تھیں کہ جسے سن کر انسان کے اشک جاری ہو جاتے ہیں؟
– کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ وه عظیم المرتبت خاتون اس دنیا – اور اس کی زینت کے لیے کسی بھی اہمیت کی قائل نہ تھیں؟
– کیا یہ ممکن ہے کہ ہم روز بہ روز دنیاوی زر و زیور، تکلفات، مہنگے وسائل اور زندگی کی کھوکھلی چیزوں میں اضافہ کریں اور اپنی بیٹیوں کے حق مہر میں اضافہ کریں؟!
– آپ جو اس لڑکی کے والد ہیں، کیا آپ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ حضرت فاطمہ (س) کے والد کے پیروکار ہیں؟
ایسے نہیں ہوتا! ہمیں چاہیے کہ خود اپنے حال پر نگاه دوڑائیں!