مصنف
آیت الله محمد تقی مصباح یزدی
موضوع
دنیا کی سختیوں کا فلسفہ
میسجز
3 میسجز

اگر آپ بینرز کے لیے اعلیٰ کوالٹی کے پوسٹرز چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔

موضوع کی تفصیل
آیت الله محمد تقی مصباح یزدی کے اخلاقی دروس سے خلاصہ وار اقتباس
سیریز کے مکمل میسجز

پہلے دن سے جب سے انسان اس عالم میں خلق ہوا سختیاں اس کی تخلیق کا حصہ رہی ہیں. یہ عارضی چیز نہیں ہے.

اس کا راز یہ ہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے – وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً (سوره انبیاء: 35) یعنی “اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے” – اور آزمائش کے لئے خوشیوں اور غموں کا موجود ہونا ضروری ہے تاکہ پتا چل سکے کہ جب خدا انسانوں کو خوشیاں دیتا ہے تو وه کس طرح عمل کرتے ہیں اور سختیوں کے مقابلے میں کس طرح کا کردار اپناتے ہیں.

انسان کی معرفت، اطاعت، خدا کی عبادت اور حوصلہ مندی کا اندازه ان خوشیوں اور سختیوں کو ایک ساتھ دیکھنے سے لگایا جاتا ہے. اگر صرف خوشیاں پائی جاتیں تو پتا نہ چلتا کہ خدا کی بندگی کے راستے میں کون زیاده قربانی دینے کے لئے حاضر ہے.

اگر کربلا کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو ہم کس طرح سمجھتے کہ سیدالشهداءؑ بندگی میں کیا مقام رکھتے ہیں؟! اور خدا کی راه میں کس حد تک قربانی دینے کے لئے تیار ہیں؟! ضروری ہے کہ اس طرح کا حادثہ پیش آئے تاکہ معلوم ہو کہ

انسانوں میں کتنے عظیم گوہر پائے جاتے ہیں. . . لہذا عالم میں سختیوں کا وجود خلقت کا حصہ ہے. کیونکہ یہ طے ہے کہ انسان اپنے اختیار سے کمال تک پہنچے.

قرآن فرماتا ہے: ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں(انعام، 42)

اس سے ملتی جلتی آیت سوره اعراف میں ہے: اور ہم نے جب بھی کسی قریہ میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں(اعراف، 94)

ان آیات میں خدا دنیا کی کچھ سختیوں کا فلسفہ، خدا کی طرف توجہ بڑهانے کا راستہ فراہم کرنے کو بیان کر رہا ہے. کیونکہ جب انسان دنیا کی نعمتوں میں مست ہو جاتا ہے تو آخرت کو بھول جاتا ہے. لیکن وه سختیاں جو ظاہری اسباب سے حل ہونے کے قابل نہیں ہوتیں، انسان کو خدا کی بارگاه اور اولیاء الله سے توسل کی طرف کھینچ لاتی ہیں.

اس طرح کی سختیاں ان رنج و زحمتوں کے علاوه ہیں جو خود اس دنیا میں قدرتی طور پر موجود ہیں. یہ وه خاص سختیاں ہیں جو کہ پیغمبروں کے ساتھ ساتھ آتی ہیں، تاکہ لوگوں کے ایمان لانے کا میدان فراہم کر سکیں.

لیکن ایمان لانے کے بعد کچھ لوگوں پر شیطان غالب آ جاتا ہے اور وه گناه کر بیٹھتے ہیں. . . خدا پهر بھی اپنی رحمت کی وجہ سے دوسری قسم کی سختیاں لاتا ہے جو تنبیہ کے طور پر ہوتی ہیں، نہ گنہگار کی مکمل سزا کے طور پر. ان سختیوں سے خدا کا اراده یہ ہوتا ہے کہ گنہگار کو جھنجوڑے کہ شاید وه بیدار ہو جائے. “اور ہم یقینا بڑے عذاب سے پہلے انہیں معمولی عذاب کا مزہ چکھائیں گے (سوره سجده: 21)”.

خدا بعض اوقات چھوٹی سختیاں لاتا ہے جن کی وجہ خود انسان کے اعمال ہوتے ہیں. “اور تم تک جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے (شوری، 30)”. تاکہ انہیں ان کے کچھ برے کاموں کا مزه چکھائے اور ان کی بیداری کا سامان فراہم کرے. “تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں (سوره روم: 41)”. اور سمجھ جائیں کہ اس راستے کے کیا اثرات ہیں.

جب بولنا اور نصیحتیں کرنا اثر نہ دکھائیں تو گناہوں کے حقیقی اثرات میں سے کچھ کا مزه چکھا دیتا ہے تاکہ سمجھ جائیں کہ کچھ بے احتیاطی کر رہے ہیں. لہذا یہ سختیاں اور عذاب بھی خدا کی رحمت کی وجہ سے ہیں.