مصنف
حجت الاسلام سید حسن نصرالله
موضوع
میسجز
موضوع کی تفصیل
سوال و جواب
کائنات میں دو طرح کے جہان موجود ہیں:
غیب کا جہان (عالم الغیب) اور محسوس ہونے والا جہان (عالم الشهادة). اس جگہ شہادت سے مراد وه چیزیں ہیں جو دیکھی جا سکیں اور وه چیزیں جو حواس پنجگانہ(دیکھنا، سننا، لمس کرنا، سونگھنا اور چکھنا) کے ذریعے محسوس کی جا سکتی ہیں؛ لیکن غیب سے مراد وه چیزیں ہیں جو حواس پنجگانہ سے سمجھی نہیں جا سکتیں اور یہ وه چیزیں ہیں جو ہم سے چھپی ہوئی ہیں اور ہم انہیں محسوس نہیں کر سکتے.
ہر وه چیز جو “الله تعالی سے” اور “اس کی جانب سے وحی ہونے سے” متعلق ہے اور جو “فرشتوں”، “موت” اور “وه کچھ جو موت کے بعد پیش آئے گا”، “قبر”، “برزخ” اور “وحشت سے متعلق چیزوں” اور “روزِ قیامت کے حالات”، “سزا و جزا” اور “جنت و دوزخ”، یہ سب غیب سے متعلق ہیں.
مثال کے طور پر آج تمام تر علمی ترقی کے باوجود “خلقت کی ابتدا” کے بارے میں صرف مختلف نظریے موجود ہیں جبکہ اس بارے میں کوئی یقینی حقائق اور علمی طور پر ثابت شده باتیں موجود نہیں کہ الله تعالی نے کس طرح اس جہان کو، انسان اور حیوان کو، آدمؑ اور جناب حوا کو اور جنت و دوزخ کی خلقت کا آغاز فرمایا.
لہذا غیب کا کچھ حصہ ماضی سے اور کچھ حصہ مستقبل سے متعلق ہے.
اس بحث کے حوالے سے ایک نکتے پر توجہ کرنا ضروری ہے. غیب اور محسوسات ایک نسبی چیز کے دو حصے ہیں.
آج اور کل کیا پیش آئے گا؟ ہم نہیں جانتے اور یہ غیب ہے. لیکن اگر کل تک زنده رہ جائیں تو جو کچھ پیش آئے گا وه شہادت (محسوسات) میں سے ہو جائے گا اور پھر یہ چیزیں غیب نہیں رہیں گی.
اسی طرح موت اور روح کا بدن سے خارج ہونا اور وه تمام واقعات جو روح کو پیش آتے ہیں یہ سب غیب میں شمار ہوتے ہیں؛ لیکن جب انسان مر جاتا ہے اور ان تمام مراحل کو طے کرتا ہے تو یہ چیزیں شہادت (محسوسات) سے متعلق ہو جائیں گی.
اسی طرح قیامت اور جو کچھ بھی اس میں پیش آئے گا غیب سے متعلق ہیں جب تک کہ ہم اس دن کو نہ پا لیں اور ایک گروه جہنم اور ایک گروه جنت میں چلا جائے. اس وقت یہ تمام واقعات محسوسات اور شہادت میں تبدیل ہو جائیں گے اور غیب نہیں رہیں گے.
ہمارا یہ عقیده ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے جو خاتم النبیین حضرت محمد (ص) کے قلب پر نازل ہوئی اور یہ علم الله تعالی کی طرف سے عطا کیا گیا ہے. قرآن میں مستقبل اور غیب کے حوالے سے خبریں موجود ہیں اور یہ ایک قابل اعتماد راه ہے البتہ (اس بات پر توجہ رہے کہ) قرآنی آیات سے مطالب سمجھنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے، یہ ایک الگ بحث ہے.
ایک اور قابل اعتماد راه وه خبریں ہیں جو پیغمبروںؑ سے نقل ہوئی ہیں یا وه جو پہلی نسل نے رسول خدا (ص) سے سنا یا وه جو اہلبیتؑ کے ذریعے ہم تک پہنچا یا ان سے سنا گیا.
لہذا صرف یہی وه راستے ہیں جن کے ذریعے انسان آئنده کو صحیح اور یقینی طریقے سے جان سکتا ہے جس میں کسی شک و تردید اور وهم کی گنجائش نہیں. یعنی دیگر تمام راستے مثلاً “ستاروں کے ذریعے مستقبل کا حال جاننا”، “فال نکالنا”، “علم اعداد و حروف و ابجد”، “جن تسخیر کرنا”، “روح کو بلانا” یا “خواب” وغیره یا غلط ہیں یا احتمال اور گمان کی حد تک ہیں جو انسان کو علم اور یقین تک نہیں پہنچاتے.
اور یہ وه اہم ترین پہلو ہے جس کے بارے میں میں تفصیلی طور پر بحث کرنا چاہتا ہوں. ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کا تعین کریں کہ ہم کس طرح جانیں، کس طرح امیدوار رہیں اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہم ان دو راستوں سے حاصل ہونے والی مستقبل کی خبروں کو کس نظر سے دیکھیں. بالخصوص وه باتیں جو آخری زمانے، ظہور اور اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ہیں.
الله تعالی نے اپنے لطف و کرم سے انسان کے لیے علم و دانش اور معرفت کے بہت سے در اس طرح کھول دیے ہیں کہ آج دنیا میں ٹیکنولوجی، کمیونیکیشن، عقلی اور فلسفی تحقیق کے حوالے سے عظیم معلومات موجود ہیں لیکن الله تعالی نے علم غیب کا راستہ ہمارے لیے کیوں بند کر دیا ہے؟
الله تعالی نے اس دروازے کو رحمت کی بنیاد پر بند کیا ہے. مثلاً اگر الله تعالی ہم میں سے کسی کو علم غیب عطا کر دے اور اسے معلوم ہو جائے کہ اس کے والد فلاں دن اس دنیا سے چلے جائیں گے اور اس کی والده فلاں بیماری کی وجہ سے انتقال کریں گی تو سوال یہ ہے کہ اس انسان کی زندگی ان باتوں کے پتہ چل جانے کے بعد کس طرح کی ہو گی؟ کیا ایسا انسان جو اپنے خاندان کے تمام افراد کے مرنے کا زمانہ اور موت کی وجہ جانتا ہو تو کیا وه اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو سکے گا؟
آج اگر ہمیں پتہ چلے کہ کسی کو کینسر ہو گیا ہے اور وه تین مہینے بعد مر جائے گا تو جب ہم اس سے ملتے ہیں تو حتی اس کی شکل پر نگاه بھی نہیں ڈال سکتے، تو پھر ہم کس طرح اس طرح کی معلومات کو برداشت کر سکیں گے؟
حتی پیغمبروںؑ میں بھی برداشت اور صبر کی طاقت مختلف تھی. چونکہ خدا ہمارے لیے ایک آرام ده زندگی چاہتا ہے اس لیے اس نے اس علم کا در ہم پر بند کر دیا ہے.
اس کے علاوه ہمارے لیے خدا نے یہ چاہا ہے کہ ہم کوشش کریں، کام کریں، سیکھیں، سکھائیں اور صبر و تحمل کا مظاہره کریں. یہ دنیا انسان کے لیے سختی کی جگہ ہے، کمال تک پہنچنے، آگے بڑھنے اور امتحان کی جگہ ہے. اور اگر ہمیں ساری چیزیں معلوم ہوتیں تو پھر زندگی کا کوئی معنی ہی نہیں ہوتا.
لہذا جس مقدار میں الله تعالی نے اپنے پیغمبروںؑ کو غیب کی باتیں بتائیں وه اتنی تھیں کہ جو لوگوں کی مصلحت، دنیاوی زندگی کے فائدوں، ان کے دین، ان کے مستقبل اور دنیا و آخرت میں ان کی کامیابی کے لیے ضروری تھیں. اور یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی رحمت اور حکمت کی وجہ سے علم غیب کے دروازے کو نہیں کھولا.
#غیبکیخبریںجاننےکی_راہیں
قرآن مجید میں مستقبل کے حوالے سے بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے میں اپنے موضوع سے متعلق تین آیات کی طرف اشاره کرتا ہوں:
اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں (سوره قصص: 5)
الله نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کر دے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں (سوره نور: 55)
اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے (سوره انبیاء: 105)
اس بارے میں متعدد آیات موجود ہیں. یہاں پہلی آیت میں الله کا اراده ذکر ہوا ہے “نرید” یعنی ہم چاہتے ہیں؛ دوسری آیت میں الله تعالی نے وعده دیا ہے “وعد” اور تیسری آیت میں لکھ دیے جانے کا ذکر ہے “”کتبنا”.
البتہ قرآن کریم نے جزئیات کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے کہ آخری زمانے میں کون اس حکومت کو قائم کرے گا لیکن پیغمبر اسلام (ص) نے اس شخصیت کے حوالے سے بات کی ہے اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آخری زمانے میں یہ وعده مہدی (عج) نام رکھنے والی عظیم شخصیت کے ہاتھوں انجام پائے گا. اسی طرح ہم مسلمانوں کا عقیده ہے کہ حضرت عیسیؑ زمین پر پلٹ آئیں گے. اور ہر وه چیز جو انسان اپنی خلقت کی ابتداء سے چاہتا ہے ان شاء الله اسے حاصل کر لے گا.
اور یہ سب وه باتیں ہیں جو قرآن کی بنیاد پر استوار ہیں.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
غیب اور مستقبل کے بارے میں جاننے کے لیے ہم مسلمانوں کے پاس دو اہم منبع موجود ہیں. پہلا منبع قرآن مجید اور دوسرا منبع احادیث و روایات ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں.
تمام مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی قران میں ہے وه یقینی طور پر الله تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہے. قرآن کریم میں عالم غیب اور آئنده کے حوالے سے بہت سی خبریں پائی جاتی ہیں؛ البتہ غیب اسی وسیع معنی میں جو پہلے بیان ہو چکا (یعنی وه تمام چیزیں جو حواس پنجگانہ سے سمجھی اور محسوس نہیں کی جا سکتیں).
قرآن میں مستقبل کے حوالے سے جو کچھ بیان ہوا ہے وه صرف آخری زمانے میں رونما ہونے والی چیزوں کے حوالے سے نہیں بلکہ اس میں ایسے واقعات بھی ہیں جو خود رسول اکرم (ص) کے زمانے میں ہی واقع ہو گئے. مثلاً سوره روم کا نازل ہونا کہ اس وقت پیغبر اکرم (ص) مکے میں تھے اور مسلمان بہت کم جبکہ کفار کی تعداد بہت زیاده تھی. اس زمانے میں اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ فارس (مجوسی) اور روم (عیسائی) دو سب سے بڑے ممالک تھے اور ان کے درمیان جنگ واقع ہو جاتی ہے. مجوسی جو مشرک تھے اس وقت کے ایمان رکھنے والے عیسائیوں پر غلبہ پا لیتے ہیں اور مشرکین مکہ اس بات کو اچھا اشاره سمجھتے ہیں کیونکہ وه یہ سمجھے کہ اس طرح وه بھی حضرت محمد (ص) کو شکست دے سکتے ہیں. اس موقعے پر یہ سوره نازل ہوئی:
لم ﴿١﴾ روم والے مغلوب ہوگئے ﴿٢﴾ قریب ترین علاقہ میں، لیکن یہ مغلوب ہوجانے کے بعد عنقریب پھر غالب ہوجائیں گے ﴿٣﴾ چند سال کے اندر، اللہ ہی کے لئے اوّل و آخر ہر زمانہ کا اختیار ہے اور اسی دن صاحبانِ ایمان خوشی منائیں گے ﴿٤﴾ الله کی نصرت و امداد کے سہارے کہ وہ جس کی امداد چاہتا ہے کردیتا ہے اور وہ صاحب عزّت بھی ہے اور مہربان بھی ہے ﴿٥﴾
اس پیشن گوئی کا مقصد یہ تھا کہ بتایا جائے رسول اکرم (ص) اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ خبر مسلمانوں کے ایمان کے پختہ ہونے اور دوسرے لوگوں کے لیے دی گئی تھی. یعنی اس زمانے میں یہ پیشن گوئی خاص طور پر کسی مقصد کے حصول لیے نازل کی گئی تھی.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
دوسرا منبع احادیث اور وه باتیں ہیں جو مسلمانوں نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہیں یا وه مطالب ہیں جو آئنده اور عالم غیب کے بارے میں اہلبیتؑ کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں.
اس بارے میں کئی سو روایات اور احادیث موجود ہیں اور کچھ علماء نے تو ہزاروں روایات نقل کی ہیں. ان احادیث کو مختلف پہلوؤں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن میری نظر میں ان روایات کے تین بنیادی گروه ہیں کیونکہ یہ اس بحث کے نیتجے سے مربوط ہیں.
روایات کا پہلا گروه:
مستقبل اور عالم غیب سے متعلق وه روایات جن کا امام مہدیؑ اور آخرالزمان میں ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں. مثال کے طور پر وه روایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ مثلاً کچھ پرچم بنی امیہ کی حکمرانی کو نابود کر دیں گے اور پھر بنی عباس کے زوال اور ان کے حالات و واقعات اور مغلوں کے حملے، دنیا کے حالات، جنگوں، حکام، بادشاہوں، علماء ،قاریوں، خواتین اور مرد، اجتماعی روابط، بچوں کے گھر والوں کے ساتھ برتاؤ، کائنات میں رونما ہونے والے واقعات جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، چاند گرہن، سورج گرہن، بارش اور زلزلے کے بارے میں ہیں.
شیخ مفید کی کتاب “الارشاد” کے دوسرے حصے میں اس طرح کی روایات کا مجموعہ موجود ہے جن میں لباس، کتابوں، مساجد اور قرآن کے بارے میں مطالب آئے ہیں اور ان میں بہت ساری جزئیات بیان کی گئی ہیں جو دوسری شیعہ اور سنی کتابوں میں بھی موجود ہیں.
اگر ہم آج دنیا اور اس میں ہونے والے واقعات پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ان میں سے بہت ساری روایات اور احادیث میں بیان کی جانے والی چیزیں رونما ہو چکی ہیں.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
روایات کا دوسرا گروه:
وه روایات جو نشانیوں اور واقعات کو بیان کرتی ہیں اور ان کا امام مہدیؑ سے تعلق قائم گیا ہے یا یہ کہ دونوں میں ایک طرح کا رابطہ پایا جاتا ہے؛ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر یہ واقعات رونما ہو جائیں تو ان واقعات کا امام مہدیؑ سے زمانے کے لحاظ سے کتنا فاصلہ ہے یعنی اس بات کا تعین نہیں کیا گیا ہے کہ کتنی مدت بعد امام مہدیؑ ظہور کریں گے.
اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ کچھ روایتیں پہلے اور دوسرے گروه میں ایکساتھ ذکر کی جائیں جیسے کہ بنی عباس کی حکومت کا بننا اور پھر نابود ہو جانا کہ ان روایات کو گروه اوّل میں بھی ذکر کیا گیا لیکن امام مہدیؑ کے ظہور اور بنی عباس کی حکومت کے درمیان کتنا فاصلہ آئے گا یہ وقت معلوم نہیں.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
روایات کا تیسرا گروه:
وه واقعات و حادثات ہیں جن کا زمانہ معلوم ہے اور ان روایات میں وقت کی بھی نشاندہی کی گئی ہے. اس طرح کی نشانیاں جن میں ان کے رونما ہونے اور امام مہدیؑ کے ظہور کے درمیان کا فاصلہ بھی بتایا گیا ہے. ہم انہیں “خاص نشانیوں” کا نام دیتے ہیں. اس طرح کی روایتیں شیعوں کے پاس بھی ہیں اور اہلسنت کے پاس بھی جیسے “سفیانی”، “خراسانی” اور “یمانی” کا ظاہر ہونا.
“نفس زکیہ (بے گناه)” کا خانہ کعبہ میں رکن اور مقام کے درمیان قتل اور آسمان سے بلند صدا کا آنا ان واقعات اور حوادث میں سے ہیں جو زمانے کے لحاظ سے ایکدوسرے سے ارتباط رکھتے ہیں اور متصل ہیں. روایات کے مطابق جبرائیلؑ آسمان سے بلند آواز میں اعلان کریں گے اور امام مہدیؑ کے بارے میں خبر دیں گے، ان کا نام لیں گے اور لوگوں کو ان کی مدد کے لئے بلائیں گے، سب لوگوں سے ان کی زبان میں بات کریں گے، ایک ہی وقت میں یہ صدا پوری دنیا میں پہنچے گی اور یہ آواز ایک خاص شدت کی ہو گی. کچھ روایات کے مطابق اس آواز کو سننے سے لوگوں کے جسم لرز جائیں گے. دیگر واقعات میں سے یہ ہے کہ اس صدا کے چند دن یا چند ہفتے بعد امام مہدیؑ ظہور کریں گے جبکہ کچھ روایات کے مطابق امام مہدی (عج) اسی دن ظہور فرمائیں گے.
اسی طرح دیگر نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب سفیانی ظاہر ہو گا اور اپنی ایک فوج حجاز اور ایک عراق بھیجے گا تب حجاز جانے والی فوج مدینے میں وہی کام کرے گی جو ان کے آباؤ اجداد نے مدینہ میں انجام دیا تھا. یہ لشکر مدینہ اور مکہ کے درمیان راستے کے شروع میں ہو گا تو “الخسف فی البیداء” یعنی صحرا میں گھڑا بنے گا اور یہ لشکر نابود ہو جائے گا اور ان میں سے صرف دو فرد باقی بچیں گے. یہ روایت شیعہ اور سنی دونوں کے پاس موجود ہے.
اس طرح کے واقعات کو “ایکساتھ رونما ہونے والے واقعات” کہا جاتا ہے جو تھوڑی مدت میں ہی انجام پائیں گے اور روایات اسے ایک سال، چند مہینوں یا چند دنوں کی مدت بتاتی ہیں. یہ واقعات ایکدوسرے سے متصل اور ایک کے بعد ایک واقع ہونگے. ان نشانیوں کو “خاص نشانیاں” کہتے ہیں.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
سوال: اگر ہم آخری زمانے کے حوالے سے روایات کو جان لیں اور یہ سمجھ جائیں کہ یہ نشانیاں امام مہدیؑ سے متعلق ہیں یا نہیں تو اس کا کیا فائده ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چاہے آپ یہ چیزیں جانتے ہوں یا نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا؟!
جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ جب بھی الله تعالی مستقبل کے بارے میں خبر دیتا ہے تو کیا (نعوذبالله) آیات کو بڑهانے کے لیے اس کام کو انجام دیتا ہے یا بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی حکمت ہوتی ہے؟!
بلا شک و شبہے کے یہ بات یقینی ہے کہ جب بھی الله تعالی نے اپنے پیغمبروںؑ کو کسی غیبی چیز کے بارے میں خبر دی ہے تو اس کے پیچھے حکمت اور رحمت موجود ہوتی ہے. اب چاہے ہم اس حکمت اور فائدے کو سمجھ پائیں یا نہ سمجھ پائیں. البتہ یہ بات یقینی ہے کہ اس کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے.
ان نشانیوں اور مستقبل کی خبروں کو جاننے کے کچھ فوائد کو آئنده میسجز میں بیان کیا جائے گا ان شاء الله:
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
عقیدتی طور پر ان احادیث کی تحقیق کرنا، انہیں ثابت کرنا اور ان کے صحیح ہونے پر اطمینان حاصل کرنے کے بہت زیاده فائدے ہیں. مختلف پیغمبرؑ جب بھی اپنے لوگوں کے پاس جاتے تھے تو لوگ ان سے دلیل مانگتے تھے اور ان کی دلیل معجزه ہوتا تھا.
پہلے کے پیغمبروںؑ جیسے حضرت موسیؑ و حضرت عیسیؑ کے معجزات میں سے ایک قسم کے معجزات مستقبل کے حوالے سے خبریں تھیں. مثلاً حضرت عیسیؑ لوگوں کو غیب کی خبر دیتے تھے یا انہیں ان کے گھروں کے حالات بتاتے تھے.
ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی (ص) سے بھی بہت بڑی تعداد میں مستقبل سے متعلق خبریں نقل ہوئی ہیں جو پوری بھی ہوئیں. کیا یہ بات ہمارے پیغمبر (ص) کی ان تمام چیزوں کے بارے میں وسیع معلومات کی دلیل نہیں جو گزرے ہوئے زمانے سے قیامت تک تھیں اور ہیں؟!
ہم جو حضرت محمد (ص) کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اس بات کی وجہ سے ہمارا آپ (ص) کی نبوت اور کرامت پر ایمان اور زیاده بڑھ جاتا ہے اور یہ خود ایک بہت روشن اور واضح فائده ہے.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا انتہائی اہم ہے. آج نفسیاتی دباؤ ہر زمانے سے زیاده شدت اختیار کر گیا ہے.
آج بین الاقوامی اور علاقائی چپقلشیں، بیماریاں، چیلنجز اور دردناک مصیبتوں وغیره سے زندگی کے تمام میدان جیسے فکری، ثقافتی، ملٹری اور ماحولیات وغیره متاثر ہیں. اور ان تمام چیزوں میں اگر امید کا فقدان ہو تو اس کا نتیجہ شکست اور سقوط کی صورت میں نکلے گا.
انسان کا ایک الہی زندگی کے حصول کے لیے امیدوار ہونا جو یہ کہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب مستضعف (کمزور بنا دیے گئے) عادل مومنین حکمران ہونگے اور وه پوری دنیا کی سطح پر امن و آرام قائم کر دیں گے، وه علم و دانش کے کئی ایسے در کھول دیں گے جس تک آج تک کوئی نہیں پہنچا؛
یہ چیز انسان کو اعتماد عطا کرتی ہے اور انسان اس چیز کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے.
اس صورتحال میں انسان اپنے اندر اس امید تک پہنچنے کے لیے عزم و اراده پیدا کرتا ہے اور اس امید تک پہنچنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
مستقبل کے بارے میں جاننے کا ایک اور فائده بھی ہے.
ہم بڑی اور طولانی شاہراہوں پر دیکھتے ہیں کہ پورے راستے میں بہت سارے سائن بورڈز موجود ہوتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کتنا راستہ طے ہو گیا ہے. یہ سائن بورڈز “منزل تک پہنچنے کے بارے میں ایمان کو مضبوط کرنے” اور “امید کے حصول کے قریب ہونے” کی نشاندہی کا باعث بنتے ہیں اور انسان منزل تک پہنچنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.
اگر ہمارے پاس صدیوں پہلے سے ظہور کے لیے کوئی نشانی اور علامتیں نہ ہوتیں تو ہم ناامید ہو جاتے.
جبکہ ہمارے پاس مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے نشانیاں، خبریں اور پیشن گوئیاں موجود ہیں. اس لیے جب یہ کہا جاتا ہے کہ مثلاً سو چیزیں ہیں جنہیں انجام پانا ہے اور ان میں سے بیس واقع ہو چکی ہیں تو یہ چیز امید کے پورا ہونے کو نزدیک تر کر دیتی ہے.
لہذا آئنده سے دل لگانا ایک ایسی چیز ہے جو:
ارادے کے ایجاد کرنے”،
“ڈٹے رہنے” اور
“کوشش کرنے کے لیے”
فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
یہ موضوع اور اس کی جزئیات بہت زیاده اہمیت کے حامل ہیں کہ پوری دنیا کی سطح پر یہ چیزیں رونما ہونگی یعنی ظالمین اور طاغوت زمین بوس ہو جائیں اور مستضعف صالح مومنین زمین پر حکومت برپا کر دیں!!
یہ ایک تاریخی، بین الاقوامی اور بے نظیر چیز ہے اور یہ سب ایک سیکنڈ میں، اتفاقی طور پر یا ایکدم سے نہیں ہو جائے گا بلکہ اس کے لیے مقدمات کی ضرورت ہے تا کہ یہ سب انجام پا سکے.
حتی فکری اور ذہنی طور پر بھی ضروری ہے کہ انسانیت کو اتنے بڑے اور عظیم تاریخی واقعے کے رونما ہونے کے لیے آماده کیا جائے. لہذا پیغمبروںؑ کی خواہش آخری زمانے میں حقیقت میں بدل جائے گی.
البتہ یہ سب ایکدم سے اور اس واقعے کی نشانیوں، اسباب اور دلیلوں کے بغیر حقیقت میں تبدیل نہیں ہو گا. یہ نہیں ہو سکتا کہ نیند سے بیدار ہوں اور دیکھیں کہ سارے ظالم زمین بوس ہو چکے ہیں اور عدل کی حکومت قائم ہو چکی ہے.
کیونکہ بالآخر یہ خود انسان ہی ہیں جو عدل و عدالت کی الهی حکومت کو قائم کرنے کا وسیلہ ہیں.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
اس چیز کے لیے نشانیوں کی ضرورت ہے. ہماری ذمہ داری ہے کہ ثقافتی طور پر، نفسیاتی طور پر اور عملی طور پر اس کام کے لیے میدان تیار کریں.
مثال کے طور پر بنی اسرائیل صدیوں سے حضرت موسیؑ کے انتظار میں تھے. ان کے ظہور کے وقت کے لیے نشانیاں بھی معین کی گئی تھیں. بنی اسرائیل کو وه نشانیاں معلوم تھیں، فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بھی ان کا پتہ چل گیا تھا اور وه اس سال جتنے بھی بچے پیدا ہوتے اںہیں قتل کر رہے تھے. حضرت موسیؑ کی قوم فرعون سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کے انتظار میں تھی، وه خواه مخواه منتظر نہیں تھے بلکہ انہیں ان کے آنے کی نشانیاں معلوم تھیں.
رسول الله (ص) کے آنے کی خبریں بھی یہودیوں کی کتاب میں موجود ہیں. وه جانتے تھے اور ان کے دنیا میں آنے کے بارے میں کھوج لگاتے رہتے تھے. انہوں نے عربوں کو یہ اطلاع دی تھی کہ پیغمبر آخرالزمان (ص) یہاں پیدا ہونگے.
عیسائی بھی اس معاملے کو جانتے تھے.
اسی طرح ایران میں بھی اس بات کی اطلاع موجود تھی کیونکہ سلمان فارسی ایران سے آئے تھے تا کہ رسول الله (ص) کے ساتھ ملحق ہو جائیں.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
ایک اتنا بڑا واقعہ یعنی امام مہدی (عج) کا قیام کرنا اور حضرت عیسیؑ کا زمین پر واپس آنا ایکدم سے، مقدمات کے بغیر، ثقافتی، روحی، نفسیاتی، فکری، میدانی اور انسانی تیاری کے بغیر انجام نہیں پائے گا. یہ چیز حقیقی، سنجیده اور مثبت انتظار کیے بغیر حاصل نہیں ہو گی.
یہ کوئی منطقی بات نہیں کہ حضرت عیسیؑ زمین پر پلٹ آئیں اور یہودی دوباره ان کے خلاف سازشیں کرتے پھریں.
اسی طرح یہ بات بھی منطقی نہیں ہے کہ امام مہدیؑ قیام کر لیں لیکن لوگ ان سے منہ پھیر لیں جس طرح ان کے جدّ ابا عبدالله الحسینؑ سے منہ پھیر لیا تھا تا کہ دوباره کربلا کا واقعہ پیش نہ آئے اور ایک اور شہادت واقع نہ ہو.
بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ لوگ ان کے ساتھی اور عبادت کرنے والے مومنین ہوں تا کہ زمین کے وارث بن سکیں،
کیونکہ اس طرح کے حالات ہیں جس میں الله تعالی اپنے اولیاء کو ظہور کرنے اور حرکت کرنے کی اجازت دیتا ہے.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
امید کے ساتھ ساتھ نشانیوں کے انتظار میں رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ صرف امید اکیلے ہی کسی چیز کے انجام پانے کا سبب نہیں بنتی. الله تعالی نے اپنے ارادے میں اس الهی وعدے کے پورا ہونے کے لیے نشانیوں، واقعات اور شرائط کو رکھا ہے.
ان شرائط کا زیاده تر حصہ انسانوں کا ذمہ دار ہونا ہے؛
لیکن نشانیاں ہمیں منزل سے نزدیک ہو جانے کی یاد دلاتی ہیں. جبکہ خاص نشانیاں امید کے پورا ہونے میں صرف ایک مہینے، ایک ہفتے یا ایک دن تک باقی ره جانے کے بارے میں پتہ دینے کے لیے ہیں.
لہذا نشانیاں ہمیں نظر اور بصیرت عطا کرتی ہیں تا کہ ان کے ذریعے راستہ پہچانیں اور واضح طور پر سمجھتے ہوئے اور آشکارا دلیل کے ساتھ اپنی حرکت کو جاری رکھیں (یعنی) مستقبل ہمارے سامنے واضح ہو؛
اور یہ کامیابی تک پہنچنے کی بنیادی شرط ہے.
#اسلامکینظرمیںغیبومستقبلکیخبریں
بحث اس بارے میں ہے کہ وه احادیث اور روایات جو مستقبل اور آخری زمانے میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے ہیں اور وه جو امام مہدیؑ سے متعلق چیزوں کو بیان کرتی ہیں ان کے ساتھ ہم کس طرح سے پیش آئیں. اس حوالے سے کچھ چیزوں پر توجہ کرنا ضروری ہے:
ہمارے لیے ضروری ہے کہ قوانین اور علمی معیارات کے مطابق یہ اطمینان حاصل کریں کہ یہ روایات مقبول اور معتبر ہیں تا کہ ان روایات پر بھروسہ کر سکیں اور ان کے مطابق عمل کر سکیں (البتہ) یہ اس کام کے ماہرین کی ذمہ داری ہے.
مسلمانوں میں علماء کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اس طرح نہیں ہے کہ جو کچھ بھی پیغمبر اکرم (ص)، اہلبیتؑ یا پیغمبر (ص) کے صحابہ سے نقل ہوا ہے وه سب صحیح ہے. ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان روایات کی سند، راویوں، جس زمانے میں یہ نقل ہوئیں اور کس طرح نقل ہوئیں کے حوالے سے تحقیق نہ کی جائے. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ساری روایتیں صحیح ہیں. اسی لیے طول تاریخ میں کچھ علوم بنائے گئے جیسے علم رجال، علم حدیث، علم درایہ وغیره تا کہ ان روایات میں تحقیق اور غوروفکر کیا جا سکے.
علم رجال میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے وه کون افراد ہیں؟ جانے پہچانے ہیں یا نہیں؟ اگر جانے پہچانے افراد میں سے ہیں تو قابل اعتماد ہیں یا نہیں؟ سچ بولنے والے کہلاتے تھے یا جھوٹ بولنے والے.
اسی طرح حدیث کے علوم میں بھی تحقیق کرتے ہیں. اجمالی طور پر سند دیکھتے ہیں، روایات کے متن کو دیکھتے ہیں اور مجموعی طور پر مختلف زاویوں سے دیکھنے کے بعد اس کے بارے میں حکم لگاتے ہیں. یہ ان علوم کے ماہرین کا کام ہے… (جاری ہے)
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
…بالخصوص جب مستقبل کی خبروں جیسے مسئلہ کی بات ہو بلکہ شاید اس معاملے میں زیاده توجہ کرنے کی ضرورت ہو. کیوں؟! کیونکہ ان علوم کے ماہر دانشمند یہ کہتے ہیں کہ دو ایسے موضوع ہیں جن میں سب سے زیاده جعلی روایتیں گھڑی گئیں ہیں: ایک “الملاحم والفتن یعنی جنگیں اور فتنے” اور دوسرے “مختلف افراد کے فضائل”؛ کیونکہ ان دو موضوعات کا سیاست سے بہت گہرا تعلق تھا.
اس کے علاوه اس معاملے میں کچھ دانشمندوں اور یہودی افراد جو کہ بعد کے زمانے میں یا ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو بہت دیر سے اسلام لائے انہوں نے یہودیوں کی کتابوں اور علماء سے روایات، قصے، خبریں اور مختلف چیزوں کو نقل کیا اور اسے پیغمبر (ص) سے نسبت دے دی یا یہ کہ انہوں نے نسبت نہیں دی لیکن دوسرے لوگوں نے ان باتوں کو ایسے لیا جیسے پیغمبر (ص) سے نقل ہوئی ہوں. یہ سب قابل قبول نہیں.
بالخصوص جنگوں اور فتنوں کے بارے میں صرف وه روایات قابل قبول ہیں کہ اگر ہم ان کے نقل کرنے والوں کی کچھ دوسری خصوصیات کو نظرانداز بھی کریں تو کم از کم وه افراد جانے پہچانے، قابل اطمینان اور ضابط ہوں یعنی صحیح نقل کرنے والے ہوں اور باتوں کو ایکدوسرے میں ملا نہ دیتے ہوں؛ تا کہ ہم ان روایات کو قابل اعتماد قرار دے سکیں اور پھر دوسرے مرحلے تک جا سکیں کہ اس روایت کی تجزیہ و تحلیل کریں، اس کے متن کو سمجھیں اور فقہ الحدیث وغیره اور دیگر کام انجام دے سکیں.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
خاص طور پر آج کے دور میں ان تمام نکات کے مطابق جن کی توضیح آپ کے سامنے پیش کی گئی لوگوں میں اس موضوع سے متعلق شوق بڑھ رہا ہے.
اس لیے ان تمام شوق رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کو پہلی نصیحت یہ ہے کہ ہر وه کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں پہنچے یا میڈیا سے سنیں یا کسی بھی مذہبی ثقافتی جگہ (مساجد، امام بارگاه وغیره) میں آخری زمانے یا ظہور کی نشانیوں وغیره کے حوالے سے روایت یا حدیث دیکھیں تو یہ خیال نہ کریں کہ یہ جو بھی لکھا ہے روایت ہے، اس پر عمل کیا جا سکتا ہے، یہ تجزیہ و تحلیل کے قابل اور قابل قبول ہے!
یہ جان لیں کہ اس حوالے سے بے اساس اور جعلی روایتیں بہت زیاده ہیں یا اگر یہ روایتیں نقل بھی ہوئی ہیں تو نا آشنا اور ایسے افراد سے نقل ہوئی ہیں جن کے بارے میں کچھ نہیں پتہ کہ وه کیسے تھے اور اسی لیے یہ رواتیں ضعیف ہیں. ہم ان پر بھروسہ نہیں کرسکتے اور ان پر عمل نہیں کر سکتے.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
دوسری بحث جو اس بارے میں ضروری ہے وه یہ ہے کہ کچھ خاص موضوعات پر بہت زیاده روایات موجود ہیں. اگر کوئی تحقیق کرے تو دیکھے گا کہ خود امام مہدیؑ کا موضوع ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے. مثلاً ہم شیعہ اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ محمدؑ ابن حسن عسکریؑ، امام حسینؑ کی نسل اور رسول اکرم (ص) کی آل سے ہیں. آپؑ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کی خصوصیات بھی روایات میں موجود ہیں. اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام مسلمانوں کے نزدیک خود امام مہدیؑ کا وجود اور یہ کہ وه رسول الله (ص) اور بی بی فاطمہ (س) کی اولاد میں سے ہیں اور وه آخری زمانے میں ظہور کریں گے، ایک مسلمہ عقیده ہے. لہذا خود امام مہدیؑ کے وجود کے بارے میں کوئی بحث نہیں.
یا مثال کے طور پر سفیانی کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان بہت بڑی تعداد میں روایات موجود ہیں. یعنی مسلمانوں کی مختلف کتابوں میں موجود اتنی بڑی تعداد میں روایات کے موجود ہونے کی وجہ سے ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ بھائیوں اور بہنوں خود سفیانی کا وجود ایک مسلمہ حقیقت ہے. البتہ ان معاملات کی جزئیات کے بارے میں صحیح، ضعیف اور ایکدوسرے سے مختلف روایات موجود ہیں جن پر تحقیق ضروری ہے.
یا مثلاً آخری زمانے میں امام مہدیؑ کے ظہور سے پہلے یا اسی سال یمانی کا خروج روایت میں واضح طور پر موجود ہے.
یا خراسانی اور مشرق سے بلند ہونے والے پرچم جو اس کام کے لیے میدان فراہم کریں گے. یا آسمانی اونچی صدا کا آنا.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
میں پانچ سے چھ علامات پر تاکید کروں گا کیونکہ نشانیاں بہت زیاده ہیں جن میں بحث ہے لیکن یہ علامات بہت زیاده نقل ہوئی ہیں.
یعنی اگر ان پانچ سے چھ علامات کے حوالے سے روایات کو گنیں تو ان میں سے ہر علامت کے لیے دسیوں روایتیں مل جائیں.
مثلاً آسمانی اونچی صدا کا آنا جو مختلف تعبیروں کے ذریعے روایات میں نقل ہوئی ہے. یا مثلاً بیداء کی زمین کا منہ کھولنا اور سفیانی کی فوج کو نگل لینا جو مدینے سے مکے کے لیے نکلے گی. بہت خوب! یہ وه علامتیں ہیں کہ جو موجود ہیں. حتی کچھ روایات میں سیدِ حسنی کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے جو امام زمانہؑ سے پہلے قیام کریں گے. لہذا ایسی شخصیات اور واقعات ہیں جن کے حوالے سے روایات میں ذکر موجود ہے.
اس معاملے میں کس چیز سے بچنا ضروری ہے؟
یہ وه جگہ ہے جہاں ممکن ہے کہ دعوے کیے جائیں. ویسے ہی جیسے پہلے بیان کیا کہ کبھی کبھار اس باب سے غلط فائده اٹھایا جاتا ہے.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
اس موضوع کے حوالے سے تیسرا نکتہ جس کے بارے میں میں بحث کرنا چاه رہا ہوں وه خطرناک ترین مسائل میں سے ایک ہے. میری اپنے بھائیوں اور بہنوں سے گزارش ہے کہ وه ان مطالب پر غور کریں.
میں #سیدھی_سیدھی اور #دوٹوک بات کروں گا اور موجوده زمانے اور ان چیزوں کے بارے میں جن میں ہم آج مبتلا ہیں مثالیں پیش کروں گا.
تیسرا موضوع ان روایات کے مطابق مصداق معین کرنا ہے یعنی یہ کہا جائے کہ وه فلاں واقعہ جو رونما ہوا وه ظہور کی نشانیوں میں سے ہے.
یہ بات دعوی کرنا نہیں بلکہ ایک الگ بات ہے کیونکہ جو بھی دعوی کرتا ہے اس کا جھوٹا ہونا طول تاریخ میں واضح ہے اور اس موضوع پر ہماری بحث ختم ہو چکی ہے.
البتہ کبھی کبھار خود ہم لوگ دعوی کرتے ہیں کہ فلاں واقعات اور شخصیات جو روایات میں بیان ہوئی ہیں وه موجوده دور کی فلاں شخصیت ہے جبکہ شاید خود وه شخصیت اس طرح کا دعوی نہ کرتی ہو.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
روایتوں کی تقسیم بندی جو آپ کی خدمت میں عرض کی تھی اس میں:
پہلا دستہ کلیات کا تھا. مثلاً پیغمبر (ص) نے آخری زمانے میں آنے والے بادشاہوں، حاکموں، والیوں، علماء، عورتوں، زندگیوں، رسم و رواج، عادتوں، مساجد، قرآن، جنگوں، بیماریوں اور دنیا کے حالات وغیره کے بارے میں مطالب بیان کیے ہیں جو سب روایات میں موجود ہیں لیکن ان کا امام مہدیؑ کے قیام سے کوئی رابطہ نہیں.
میں عرض کر دوں کہ اس طرح کی احادیث میں کوئی اختلاف موجود نہیں. ہم میں سے کوئی بھی ان روایات کو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے ملائے گا تو کہے گا کہ ہاں یہ چیزیں واقع ہو گئی ہیں. مثلاً کچھ روایات میں آیا ہے کہ عورتوں کے لباس مردوں کی طرح کے ہو جائیں گے. کیا اس بارے میں کوئی اختلاف ہے؟! یا مثلاً بنی امیہ کی حکومت کا سرنگوں ہونا. یا بنی عباس کا حکومت کے بارے میں اختلاف اور ان کی حکومت کا سرنگوں ہونا. یہ سب اس لیے ہے کہ ہمیں اس بارے میں شک و شبہہ نہیں بلکہ ہمیں اس کے متعلق علم ہے. یقینی طور پر اس طرح کی روایات میں سے زیاده تر چیزیں واقع ہو چکی ہیں.
ان روایات کا دوسرا دستہ وه ہے جو امام مہدیؑ کے قیام سے پہلے کے زمانے سے مربوط ہے لیکن ان نشانیوں کے رونما ہونے میں اور قیام کے درمیان کا فاصلہ بیان ںہیں ہوا ہے. مثلاً ہماری بعض روایات میں ہے کہ کوفے میں علم خشک ہو جائے گا اور قم نامی شہر میں ظاہر ہو گا. بہت خوب! ان 30 سے 40 سالوں میں یہ بات واقع ہوئی ہے. لیکن اس واقعے کے کتنے عرصے بعد امام مہدیؑ کا ظہور ہو گا؟ ایکسال، دو سال، پچاس سال یا سو سال؟ معلوم نہیں!!
ان کلیات کی حامل نشانیوں میں سے کچھ واقع ہو چکی ہیں اور کچھ ابھی تک واقع نہیں ہوئی ہیں. اس معاملے میں کوئی مشکل نہیں.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
سب سے اہم روایات کا تیسرا دستہ ہے جن میں خاص نشانیاں بیان ہوئیں ہیں. ان روایات میں بیان شده واقعات امام مہدیؑ کے قیام سے متصل ذکر ہوئے ہیں. ان میں اہم ترین نشانیاں سفیانی، یمانی، خراسانی، آسمانی اونچی صدا اور زمینِ بیداء کا منہ کھولنا یعنی یہی پانچ چھ نشانیاں ہیں. کیونکہ ان کے بارے میں وقت بیان ہوا ہے!!
روایات میں ذکر ہوا ہے کہ یہ واقعات ایک سال میں، ایک مہینے میں یا ایک ہی دن میں واقع ہونگے. مثلاً یمانی، سفیانی اور خراسانی کا خروج ایک ہی زمانے میں واقع ہو گا.
کچھ روایات میں آیا ہے کہ آسمانی اونچی صدا رجب میں آئے گی، کچھ دیگر نے رمضان میں اور کچھ نے محرم کا کہا ہے. لہذا یہ احتمال موجود ہے کہ چند بار صدائیں دی جائیں اور یہ احتمال بھی ہے کہ صدا ایک ہی دفعہ آئے لیکن زمانے کے حساب سے روایات مختلف نقل ہوئی ہوں.
اس معاملے میں پیش آنے والی اصلی مشکل کیا ہے؟ مصداق کو معین کرنا.
ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ واقعات جو آپس میں ایکدوسرے کے ساتھ مرتبط ہیں، ایکدوسرے کے ساتھ اور اسی زمانے میں کب واقع ہونگے؟؟
وه روایات جو ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ واقعات کب رونما ہونگے!!
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
وه کلیات والی نشانیوں کے بارے میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ واقع ہو گئیں ہیں یا واقع نہیں ہوئی ہیں تو یہ اگلے سال امام مہدیؑ کے قیام اور حق و عدلِ الهی کی حکومت کے قیام سے لازم و ملزوم نہیں کیونکہ ان کا ایک ہی زمانے میں واقع ہونا طے نہیں.
جبکہ اگر میں لوگوں سے یہ کہوں کہ فلاں شخص سفیانی ہے یعنی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ لوگ چھ، سات یا تین مہینے بعد امام مہدیؑ کے منتظر رہیں. یہ سب روایات میں ہے. یا اگر یہ کہوں کہ فلاں شخص یمانی یا خراسانی ہے یا وه صدا جو کل رات سنی گئی تھی مثلاً وه وہی آسمانی اونچی صدا تھی؛ یعنی میں کہہ رہا ہوں کہ آپ لوگ کچھ ہفتے یا کچھ مہینوں بعد امام مہدیؑ کے منتظر رہیں. کیا آپ اس بات پر غور کر رہے ہیں؟ اس مسئلے کی وجہ سے یہ بات اتنی اہم بن جاتی ہے!!
یہ ایک غلط کام ہے کیونکہ:
یہ علم و یقین کے بغیر مصداق کا تعین کرنا ہے. یہ سب احتمالات اور ظن ہیں اور إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (سوره یونس: 36) یعنی “جب کہ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا”. یقینی طور پر گمان اور ظن انسان کو کسی طور پر بھی حق سے بے نیاز نہیں کرتے.
دوسری دلیل یہ کہ مصداق معین کرنے میں لوگوں کی گمراہی کا خطره موجود رہتا ہے کیونکہ اگر یہ پسندیده پرچم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ ان کی مدد کریں اور اگر وه ناپسندیده پرچم ہے تو کم از کم یہ ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں تنہا چھوڑ دیں یا حتی ان سے جنگ کے لیے کھڑے ہو جائیں. لہذا اس صورتحال میں آپ یا ان کی مدد کرنے کے لیے دعوت دے رہے ہیں یا کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں شکست سے دوچار کر دیں؛ لیکن آپ کا یہ کام گمان اور ظن کی بنیاد پر ہے نہ علم و یقین کی بنیاد پر!! (جاری ہے)
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
تیسری اور سب سے خطرناک دلیل یہ ہے کہ جب آپ روایات میں بیان شده ان موضوعات اور شخصیات کا مصداق موجوده شخصیات میں سے کسی ایک کو قرار دیتے ہیں لیکن جب پہلی مرتبہ یہ بات صحیح نہیں نکلتی اور اس شخصیت کا انتقال ہو جاتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ یہ تو خراسانی، سفیانی اور یمانی نہیں تھا!! پھر جب دوسری دفعہ بھی مصداق کو معین کرتے ہیں لیکن وه شخصیت بھی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے؛ پھر تیسری دفعہ بھی یہی صورتحال پیش آتی ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟! اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟!
اس کا نتیجہ ان خبروں، نشانیوں اور روایات میں شک کی صورت میں نکلتا ہے!! لوگ کہتے ہیں ایسی کوئی بات ہی نہیں!! یہ صرف باتیں ہیں!! خراسانی، سفیانی اور یمانی وغیره کو انہوں نے اپنی طرف سے بنا لیا ہے!! اور حتی یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی خود مہدویت کے مسئلے میں ہی شک کر بیٹھے!!
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر زمانے میں مصداق کے تعین میں غلطی کا شکار ہونا یا اس سے غلط فائده اٹھانا موجود رہا ہے یا کچھ لوگوں کے دماغ میں آتا ہے کہ اپنی پسندیده شخصیات کے لیے دینی جواز پیدا کریں اور اس لیے اس طرح کے مصادیق کو معین کرتے ہیں. یا کچھ لوگ اپنی کتابوں کی بِکری بڑهانے کے لیے اس حوالے سے کتابیں لکھتے ہیں.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
اجازت دیں کہ اب سفیانی سے آگے بڑھ کر خراسانی کے بارے میں بات کریں. ذرا اپنی طرف والوں کی بھی بات کرتے ہیں!
مثلاً انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد ایک زمانے میں لوگوں نے جذبات و احساسات کے زیراثر یہ کہا کہ یہ وہی ہدایت کے پرچم ہیں جو مشرق سے ظہور کریں گے وغیره. تو پھر خراسانی کون ہے؟ خراسانی امام خمینیؒ ہیں. وه سید ہیں اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پورا ایران خراسان ہے اور خمین یا قم بھی خراسان کا ایک حصہ ہیں. لہذا امام خمینیؒ سید خراسانی ہیں. وہی جو پرچم کو امام زمانہؑ کے ہاتھ میں دیں گے. یہ واقعات زمانے کے حساب سے ایکدوسرے سے متصل ہیں. یعنی وه لوگ یہ کہتے تھے کہ کچھ سال صبر کریں آپ (امام زمانہؑ کا ظہور) دیکھ لیں گے. خوب! ان کا انتقال ہو گیا.
آج بھی یہ ممکن ہے کہ ہم میں سے کچھ افراد محبت اور پسندیدگی کی وجہ سے حضرت سید القائد یعنی امام خامنہ ای کے بارے میں کہیں کہ یہ سید خراسانی ہیں. البتہ سب سے زیاده خود میری یہ خواہش ہے کہ حقیقتاً ایسا ہی ہو!! لیکن کس دلیل کی بنا پر ہے؟ کن اطلاعات، کس بنیاد، کونسے علم اور نشانی کی وجہ سے؟ شاید ہم کچھ صفات کو دیکھیں اور اسے لوگوں پر تطبیق کر دیں لیکن یہ پھر بھی گمان ہی ہے. کون ہے جو علم و یقین کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ سید خراسانی امام خامنہ ای ہیں؟
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
مصداق کا معین کرنا غلطی اور خطا ہے؛ اور یہ کام علمی، نفسیاتی اور روحانی حوالے سے عظیم خطروں سے بھرا ہوا ہے.
مجھے اجازت دیں کہ موجوده زمانے سے کچھ مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کروں.
کسی زمانے میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ صدام حسین سفیانی ہے اور یہ ہے اس کے ذبح کرنے، قتل اور عظیم مظالم کی رپورٹ. لیکن دیکھا کہ کل صدام حسین مر گیا!! سفیانی تو مر گیا، اب کیا کریں!! غور کیا آپ نے؟!
اس کے بعد جب امریکہ نے عراق پر اپنا تسلط قائم کیا اور القاعده نے اس ملک میں اپنی سرگرمیاں شروع کیں تو وہاں ایک شخص ابومصعب زرقاوی ظاہر ہوا اور اس نے تکفیر اور قتل عام کا آغاز کیا؛ شیعہ، سنی، کرد، ترکمن وغیره کوئی بھی اس کے لیے اہمیت نہیں رکھتے تھے. وه مسئلہ جو اس غلطی کا زیاده سبب بنا وه یہ تھا کہ کچھ روایات میں ہے کہ سفیانی وادی الیابس کے خطے سے خروج کرے گا؛ یہ خطہ شام، اردن اور فسلطین کے مثلث کے درمیان واقع ہے اور یہ ابو مصعب زرقاوی بھی وہیں پیدا ہوا تھا. لیکن ابو مصعب زرقاوی قتل ہو گیا!!
“البتہ اگر کوئی خود اپنی شخصی رائے میں کسی نتیجے تک پہنچے تو وه آزاد ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں؛ لیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے کہ جب وه لوگوں کو بھی اسی ڈگر پر تربیت کرنا شروع کر دیتے ہیں.”
آج کچھ افراد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سفیانی داعش کا بڑا ابوبکر بغدادی ہے جو لوگوں کو عراق میں قتل کر رہا ہے. انہیں چند دنوں میں کچھ اطلاعات کی بنا پر 70، کچھ کی بنا پر 200 اور کچھ کی بنا پر بوالنمر قبیلے کے 300 افراد کو اس نے قتل کیا ہے. مردوں، عورتوں اور بچوں کے سر تن سے جدا کرتا ہے. تمام میڈیا میں بھی یہ بات پھیل گئی ہے. بہرحال آپ اس بات کو کہاں سے لائے ہیں؟ کس بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں؟ کس نے کہا ہے کہ مثلاً یہ شخص سفیانی ہے؟
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
جب یمانی کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں تو مسئلہ اس سے بھی زیاده پیچیده ہے. صرف عراق میں آج تقریباً تین سے چار یمانی ہونے کے دعویدار موجود ہیں.
خوب! کس دلیل کی بنا پر؟
حتی کسی زمانے میں حزب الله کے کچھ افراد اور حزب الله کی کچھ شخصیات کو پسند کرنے والے افراد نے یہ دعوی کیا کہ حزب الله پرچمِ یمانی اور حزب الله میں سے فلاں شخص وہی یمانی ہے.
کس دلیل کی بنیاد پر؟
الله کرے ایسا ہی ہو، ان شاء الله.
لیکن آپ یہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں، کس سند، علم اور علمی قانون کی بنیاد پر؟ اس کا کوئی جواب موجود نہیں.
یہ تمام مصادیق کا تعین احتمال اور ظن کی حد میں ہے جبکہ ہمیں مخصوصاً اس طرح کے معاملات میں منع کیا گیا ہے کہ جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس کی پیروی کریں!!
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
اس معاملے میں نیت کا پاک ہونا بھی کافی نہیں. حتی ہو سکتا ہے کہ اس طرح کوئی شخص کچھ اصولوں اور معیاروں کی وجہ سے حرام کام انجام دے.
یا ایک شخص اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اسے چاہیے کہ لوگوں کی نظر میں #امامخامنہای کی شخصیت کے حوالے سے اسے دینی جواز، احترام، محبت اور پاکیزگی ایجاد کرنی چاہیے.
لیکن کیا امام خامنہ ای کو ایسی چیزوں اور ایسے دینی جواز کی ضرورت ہے؟
ان کے پاس تو اس سے بھی زیاده محکم دینی جواز موجود ہیں!!
آپ ظن و گمان کی حد تک نشانیوں اور صفات کی تطبیق کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن میں خود باریک بینی اور دیگر چیزوں کی ضرورت ہے جبکہ ان کے پاس موجود دینی جواز قوانین، اعتقادات، علمی و فقہی و شرعی و قانونی اصولوں وغیره کی بنیاد پر ہے. کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ ان کے لیے اس طرح سے دینی جواز بنائیں.
یہ ان کا #کرداروعمل، #تقویکااعلیمعیار، #زهد، #حکمت، #شجاعت، #سیرت اور ان کے #درخشاںکارنامے ہیں جو مسلمانوں اور مومنوں کی نظر میں ان کے #احترام، #محبوبیت اور #پاکیزگی کو بڑهاتے ہیں.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
میں چاہتا ہوں کہ ایک انتہائی واضح مثال بیان کروں.
کہتے ہیں کہ آپ لوگ شام میں سفیانی سے لڑ رہے ہیں! نہیں، کس نے یہ بات کہی ہے؟! کچھ معلوم نہیں.
کیا اس لیے یہ بات کرتے ہو تا کہ ہم لوگوں کو جنگ کے لیے جمع کر سکیں یا اپنی جنگ کے لیے شرعی جواز پیدا کرسکیں؟!
نہیں! ہمیں بالکل بھی اس طرح کی چیزوں کی ضرورت نہیں. ہماری اس جنگ کا شرعی جواز بھی فقہی اور شرعی دلیلوں، حقیقت پسندانہ اور واقع ہونے والے واقعات کی بنا پر استوار ہے. ہمیں اس طرح کے شرعی جواز اور لوگوں کو جمع کرنے کے لیے اس طرح کی چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں.
ہم شام، لبنان، فلسطین، اس خطے اور اس خطے میں بسنے والی قوموں کی حفاظت کے لیے اور امریکہ کے تسلط، اسرائیل اور تکفیریوں کے خلاف شام میں جنگ کر رہے ہیں. وه تکفیری کہ اگر ان کے ہاتھ میں شام یا شام کے علاوه کچھ بھی آ جائے تو وہی کام کریں گے جو آج ابوبکر بغدادی نے عراق میں بوالنمر قبیلے کے ساتھ کیا ہے.
ہمیں کوئی ضرورت ہی نہیں کہ جوانوں کو جنگ کے لیے آماده کرنے کے لیے یہ کہیں کہ اٹھ کھڑے ہو تا کہ ہم سفیانی سے جنگ کریں! بالآخر یہ کیا باتیں ہیں؟ یہ غلط بات ہے. اگر کوئی اس طرح کی بات کرتا ہے تو وه غلطی پر ہے. یہ لوگوں کو دھوکا دینا ہے. یہ صحیح نہیں. یہ بات ہمیں کہاں سے معلوم ہے؟ ممکن ہے خراسانی، یمانی اور سفیانی کے یہ سارے واقعات 50 یا 100 سال بعد واقع ہوں. کس نے کہا ہے کہ اس سال یا دو، تین یا چار سال بعد؟
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
میرے بھائیوں! ہم عقل، منطق، علم، قوانین، اصول، قرآن، سنت نبویؐ، دلیلیں، استدلال کا طریقہ، اجتہاد اور احکام کے استخراج کرنے کے لیے مستحکم اصول رکھتے ہیں اور اپنے تمام کاموں اور تمام شرعی احکام کو سمجھنے کی بنیاد انہیں اصولوں کی بنیاد پر قائم کرتے ہیں.
الحمدالله ہمارے پاس کافی مقدار میں وحی کی تعلیمات موجود ہیں جو قرآن اور رسول الله (ص) کی سنت کی شکل میں ہیں. علم و دانش اور سمجھ بوجھ بھی کافی مقدار میں موجود ہے. لہذا اس زمانے میں بہت ہوشیار اور متوجہ رہیں ان شاء الله.
خوب! اس لیے کہ یہ نہ کہیں کہ میں نے دوسروں کے لیے تمام دروازے بند کر دیے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں کوئی تجزیہ و تحلیل یا مصداق کے معین کرنے کا احتمال آئے، تو آپ اپنے تجزیے اور ذہن میں آنے والے احتمال کے لیے آزاد ہیں.
اس بات کا احتمال موجود ہے کہ فلاں شخص روایت میں بیان شده فلاں شخصیت ہی ہو اور فلاں واقعہ وہی واقعہ ہو جس کی رسول الله (ص) نے خبر دی ہے. اس میں کوئی مشکل نہیں.
لیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ان احتمالات کو یقینی، حتمی اور آخری الفاظ کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے. اس بارے میں لکھتے ہیں، مساجد و امام بارگاه وغیره میں تقسیم کرتے ہیں. نہیں! یہ کام ثقافتی، روحانی اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے بہت خطرناک ہے.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
اس موضوع کے حوالے سے چوتھی بحث یہ ہے کہ خاص نشانیوں کے حوالے سے ہماری عمومی ثقافت، صحیح اور قابل اعتماد روایتیں – علماء کی نظر میں اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے – یہ کہتی ہیں کہ جب امام مہدی (عج) کے قیام اور الہی وعدے کے پورا ہونے کا سال ہو گا تو سفیانی، یمانی، خراسانی، اونچی آسمانی صدا کا آنا، بیداء میں زمین کا منہ کھولنا وغیره کے واقعے پیش آئیں گے. اس وجہ سے جب اس سال سے قریب ہونگے تو گومگوں کی صورتحال پیش نہیں آئے گی. جب ہم ان نشانیوں کو شروع ہوتا دیکھیں گے تو سکون اور وعدے کے پورے ہونے کا احساس کریں گے. کیوں؟ کیونکہ:
1) زمانی لحاظ سے یہ سب واقعات ایک کے بعد ایک واقع ہونگے. شاید یہ واقعات حیرت انگیز طور پر ایک کے بعد ایک واقع ہونگے.
2) یہ بات پہلی بات سے اہم بھی ہے اور کچھ روایات میں بھی موجود ہے کہ اگر ظہور کا وقت آن پہنچا اور ہم متوجہ نہیں ہوئے اور سمجھ نہ پائے کہ فلاں شخص فلاں ہے اور فلاں نشانی دراصل وہی فلاں نشانی ہے تو پھر کیا ہو گا؟!
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ سفیانی کے معاملے میں غلطی کا شکار نہیں ہونگے. حتی اگر روایات میں ذکر ہونے والے خراسانی، یمانی اور حسنی وغیره اور دیگر تمام پرچموں کے بارے میں غلطی کا شکار بھی ہو جائیں. کچھ لوگ مغربی، مصری، قیسی پرچموں وغیره کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں. حتی اگر آپ ان تمام نشانیوں کی طرف بھی متوجہ نہ ہوں تو بھی سفیانی کے بارے میں غلطی نہیں کریں گے. سفیانی مکمل طور پر صاف شفاف اور واضح عمل کرے گا… (جاری ہے)
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
3) … اس کے باوجود روایت آگے چل کر کہتی ہے کہ اگر سفیانی کے معاملے میں بھی غلطی کا شکار ہو گئے تو ایک اور چیز بھی ہے جسے آپ ہاتھ سے نہیں دیں گے اور وه ہے آسمانی اونچی صدا کا آنا. کیونکہ آسمانی اونچی صدا دنیا کے ہر گھر میں اور دنیا کے تمام لوگوں کے کانوں تک پہنچے گی. جاگے ہوئے افراد سنیں گے اور سوئے ہوئے اٹھ کھڑے ہونگے اور سنیں گے. ہر کوئی اپنی زبان میں سنے گا.
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آسمانی صدا سے مراد یہی ڈش اور سیٹیلائٹ چینلز ہیں جبکہ دنیا میں بعض افراد ایسے ہیں جن کی دسترس میں سیٹلائٹ چینلز نہیں! بلکہ کچھ ملکوں میں تو ڈش اور سیٹلائٹ چینلز بالکل ہیں ہی نہیں. بہت سے افریقی اور سینٹرل ایشیا کے ممالک، غریب ممالک اور لاتینی امریکہ کے ممالک ایسے ہی ہیں. ساتھ ہی ساتھ کون ہے جو اس کی ڈبنگ کرے؟ ایک، دو، تین، چار اور دس زبانوں میں ڈبنگ سمجھ آتی ہے لیکن دنیا کی تمام زبانوں میں ڈبنگ؟! یہ ہے اس بات کا معجزاتی پہلو!!
میں چاہتا ہوں کہ اس بات پر تاکید کروں کہ آسمانی اونچی صدا جس کا ذکر روایات میں آیا ہے ایک معجزاتی چیز ہے کیونکہ حق اور باطل کو جدا کرنے کی فیصلہ کن نشانی ہے. البتہ اس کے بعد فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (سوره کہف: 29) یعنی “اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے بے اعتنائی برتے”.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
کچھ لوگ وقت کا تعین کرتے ہیں. اس طرح عمل کرتے ہیں گویا غیب کا علم رکھتے ہیں. کہتے ہیں آج سے چھ مہینے بعد (ظہور ہو جائے گا). البتہ وقت کے تعین کی اس سے بدتر مثالیں بھی موجود ہیں مثلاً کہتے ہیں جمعے کے دن 21 ذیقعده کو، ذی الحج یا اس سال صفر میں. جو کوئی بھی اس طرح کی بات کرے اس نے جھوٹ بولا ہے. بغیر کسی احتیاط کے اور سادگی کے ساتھ عرض ہے کہ ایسا ہی ہے. اس معاملے میں احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں.
مثلاً امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوئی ایک روایت ہمارے پاس ہے کہ آپؑ اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں: اے ابا محمد! اہلبیتؑ وقت کا تعین نہیں کرتے اور حضرت محمد مصطفیؐ نے فرمایا ہے: وه لوگ جو وقت معین کرتے ہیں وه جھوٹے ہیں. اور یہ ایک یقینی بات ہے. وقت کے تعین کو رد کرنے اور ایسا کرنے سے منع کرنے اور ایسا کرنے والے شخص کو جھوٹا قرار دینے کے حوالے سے ہمارے پاس روایتین بہت ہی زیاده ہیں.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
ہماری کچھ روایات میں ہے کہ اس بات کو خدا کے علاوه کوئی نہیں جانتا. الله تعالی نے کسی کو بھی حتی اپنے بڑے پیغمبروںؑ کو بھی اس سے مطلع نہیں کیا ہے اور یہ بات “علم الساعة” کا حصہ ہے جو ان غیبی چیزوں میں سے ایک ہے جسے الله تعالی نے صرف اپنی ذات کے لیے مخصوص رکھا ہے.
لہذا اس معاملے میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ وقت معین کرنے کو مکمل طور پر رد کر دیا گیا ہے اور دوسرے یہ کہ وقت تعین کرنے سے منع کیا گیا ہے اور تیسرے یہ کہ ان لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے جو وقت معین کرتے ہیں. حتی صرف وقت کا تعین کرنا ہی ممنوع نہیں بلکہ اگر کسی نے وقت معین کیا تو ضروری ہے کہ ہم اس سے کہیں کہ بہت معذرت ہم ان باتوں کو نہیں سن سکتے، یہ جھوٹ ہے اور ہم کسی صورت اسے قبول نہیں کریں گے.
خوب! اس شدید طریقے سے منع کرنے کی کیا حکمت ہے؟ الله جانتا ہے لیکن شاید اس کی حکمت لوگوں کو گمراہ کرنے کا راستہ روکنا ہو اور اس بات سے روکنا ہو کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں شخص مہدی ہے. اگر اسی طرح ہوتا تو اب تک دسیوں مہدی ظاہر ہو گئے ہوتے. جب وقت کے تعین سے منع کر دیا جائے تو دوسروں کو گمراه کرنے کا ایک راستہ بند ہو جاتا ہے.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
صحیح ہے کہ وقت تعین کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ جھوٹ ہے لیکن اس حوالے سے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ افراد ایک اور کام کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ کیا آپ حقیقتاً امام مہدیؑ اور عدل الہی کی حکومت کے منتظر ہیں؟ کیا واقعاً آپ منتظر ہیں؟ ابھی داستان جاری ہے. اگلے دو سو سال تک کوئی خبر نہیں.
یہ بھی ایک فضول بات ہے کیونکہ کسی بھی علم و یقین پر مبنی نہیں بلکہ یہ خبر ایسے علم غیب کا حصہ ہے جسے خدا کے علاوه کوئی نہیں جانتا. تم یہ کہاں سے کہہ رہے ہو کہ ابھی دو سو سال تک کچھ نہیں ہونے والا؟ کس نے کہا ہے یہ؟
اس بات پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ وقت کا تعین کرنا ہے اور دوسرا اعتراض لوگوں کو مایوس کرنا ہے.
میں نے نشانیوں کے فائدے بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب پیغمبر (ص) اپنی وفات کے بعد کی نشانیاں بیان فرماتے ہیں تو ہر نسل پیغمبر (ص) کی پیشن گوئیوں کے ایک حصے کو حقیقتاً عملی جامہ پہنتے ہوئے دیکھتی ہے. اس کا ایک فائده یہی امید کا زنده رہنا ہے. یہی کہ نشانیوں کو تسلسل کے ساتھ پورا ہوتے دیکھتے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ منزل سے قریب ہو رہے ہیں لہذا کوئی خبر ہے.
لیکن اگر آپ ایک نسل سے کہیں کہ آئنده 200 سال تک کوئی خبر نہیں تو معلوم ہے کہ یہ کام دراصل لوگوں کو مایوس کرنا ہے جو امید کی ثقافت، انتظار فرج، الله تعالی کی ذات پر اعتماد وغیره کے خلاف ہے.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
اس موضوع کے حوالے سے آخری بحث یہ ہے کہ ان احادیث کی بنا پر ہمارا عمل کیسا ہونا چاہیے؟
ان روایات کی بنا پر ہمارا عمل و کردار ایسا ہونا چاہیے کہ دن رات ظہور کے منتظر رہیں. اسے دور خیال نہ کریں.
کیا ایسا نہیں ہے کہ ہر رات، ہر گھنٹے اور ہر دن ظہور ہونے کا امکان موجود ہے؟ بالکل اس بات کا امکان موجود ہے.
کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ الله تعالی کی مرضی پر منحصر ہے؟ اگر خدا چاہے تو آج ہی کی رات اپنے وعدے کو پورا کردے، اس میں کوئی مسئلہ ہے؟ کیا خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں (نعوذبالله)؟ کیا خدا کی قدرت اور اس کی حکمت محدود ہے؟ بالکل نہیں! بلکہ ہر سیکنڈ، ہر صبح، ہر رات، ہر روز، ہر گھنٹے، ہر دن رات میں، ہر ہفتے، ہر مہینے، ہر سال، ہر دس سال میں ممکن ہے کہ یہ واقعہ پیش آ جائے. ممکن ہے کہ الله تعالی اراده کرے اور یہ واقعہ رونما ہو جائے. کیا ہمیں غیب کا علم ہے؟ کیا ہم الله تعالی کی حکمت کے بارے میں ہر چیز سے مطلع ہیں؟ نہیں!!
اسی وجہ سے روایات میں آیا ہے، نہ یہ کہ خود میں نے یہ بات بنا لی ہو کہ لازمی طور پر دن رات اس واقعے کے منتظر رہیں، ہر دن رات اس بات کا انتظار جھیلیں اور ہر دن رات خدا سے چاہیں کہ وه ظہور کو نزدیک کرے. ظہور کے حوالے سے مناسب احساس اور سمجھ یہی ہے… (جاری ہے)
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
…اس بارے میں شاید کچھ برادران اور علماء یہ کہیں کہ کیا روایات میں یہ نہیں آیا ہے کہ ظہور سفیانی، یمانی، خراسانی، آسمانی اونچی صدا وغیره سے پہلے رونما نہیں ہو گا؟ اگرچہ اس کے جواب کے لیے ایک طولانی بحث درکار ہے لیکن بہت ہی مختصر بیان کرتا ہوں کہ حتی روایات میں بھی نشانیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: “حتمی نشانیاں” اور “غیر حتمی نشانیاں” یعنی جو شاید واقع ہوں اور شاید واقع نہ ہوں.
لیکن ہر صورت میں ہر چیز الله تعالی کے اس فرمان کے سامنے جھکی ہوئی ہے يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ (سوره رعد: 39) یعنی “اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹادیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے”. کچھ علماء کی نظر میں وه جو حتمی چیزیں ہیں وه بھی يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ کے سامنے سرنگوں ہیں. امام محمد تقیؑ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ سفیانی کی نشانی حتمی ہے؟ آپؑ نے فرمایا ہاں حتمی ہے. پھر پوچھا کہ کیا یہ آیت يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ اس پر بھی لاگو ہوتی ہے؟ آپؑ نے فرمایا “ہاں”. پھر پوچھا کیا خود مہدیؑ بھی اس آیت کے ذیل میں آتے ہیں؟ آپؑ نے فرمایا “نہیں”، مہدیؑ میعاد میں شامل ہیں إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (سوره رعد: 31) یعنی “اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہے”. لیکن اس کے علاوه ہر چیز اس آیت يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ کے سامنے سرنگوں ہے.
البتہ کچھ لوگ اس روایت کے بارے میں اعتراضات رکھتے ہیں. حتی اگر ہم اس روایت کو بھی قبول نہ کریں تو بھی اس معاملے کی جزئیات حتمی نہیں. اگر خدا چاہے تو ممکن ہے کہ ایک ہی رات میں سفیانی، یمانی، خراسانی سب خروج کر دیں اور جبرائیلؑ آسمان سے اونچی صدا لگا دیں اور کچھ گھنٹوں بعد الله تعالی اپنی مخلوقات میں چھپے اپنے ولی کو اس الہی وعدے کو پورا کرنے کے لیے ظہور کی اجازت دے دے؛ اس میں کوئی ممانعت ہے؟ یہی کہ کوئی ممانعت نہیں اس بات کے لیے کافی ہے کہ یہ امکان ہمارے لیے کھلا رہے.
انتظار کا مطلب “امیدوار رہنا”، “دعا کرنا”، “خدا سے درخواست کرنا” اور “تیار ہونا” ہے. دن رات کی آمادگی یعنی یہی.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
یہ مسئلہ اس زمانے میں انتہائی حساسیت کا حامل ہے اور ان لوگوں کے لیے جو اس سے سیاسی طور پر، امن و امان کے ماحول کے حوالے سے، ثقافتی طور پر اور حتی تجارتی حوالے سے غلط فائده اٹھانا چاہتے ہیں، ان کے فائده اٹھانے کے لیے یہ ایک بہت بڑا حربہ ہے.
ہمیں چاہیے کہ اپنے عمل اور کردار کو دقیق ترین اور بہترین علمی، شرعی اور عقلی معیاروں کے مطابق استوار کریں اور کسی بھی خرافاتی، افسانوی اور ہر اس طریقے اور وسیلے سے دوری اختیار کریں جو علم و یقین تک نہ پہنچاتا ہو اور یہ صلاحیت نہ رکھتا ہو کہ ہمارے اور خدا کے درمیان حجت قرار پائے (یعنی ہم خدا کی بارگاه میں جواب دے سکیں کہ فلاں کام ہم نے فلاں دلیل کی وجہ سے کیا تھا).
امام حسینؑ نے بھی کربلا میں اپنی ذمہ داری پر عمل کیا. اگر ہم آج بیٹھ جائیں اور دن رات نشانیوں کے حوالے سے کام کریں تو ہمارا یہ کام غلط ہے!! یہ ان معلومات کا صرف ایک حصہ ہے جن کی ہمیں ضرورت ہے!!
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ
ضروری ہے کہ اس حوالے سے ایک بات کہتے چلیں کہ آج تک جتنے بھی لوگوں نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے یا خود کو سیدِ خراسانی، یمانی، حسنی، سفیانی، نفس زکیہ وغیره کہلوایا ہے انہوں نے اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بھی دلیل پیش نہیں کی.
ان معاملات میں شک، احتمال اور ظن و گمان کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ “یقین” حاصل کریں لیکن اس طرح کی کوئی چیز ان لوگوں میں نہیں پائی گئی. ان میں سے کسی نے بھی کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کی جس سے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ یہ وہی شخصیت ہے جو روایات اور احادیث میں بیان ہوئی ہے.
لہذا دوسری بحث یہ تھی کہ اگر کسی نشانی، خبر، شخصیت یا آخری زمانے کے حوالے سے کسی خاص واقعے پر یقین پیدا کرنا چاہیں تو اس معاملے میں توجہ اور احتیاط کرنے وغیره کی ضرورت ہے. یہ بھی شاید آخری زمانے کی خبروں اور نشانیوں کو جاننے کے فوائد میں سے ایک فائده ہو جس کے بارے میں پہلے بات گفتگو کی تھی.
#ظہورکینشانیوںکےمطالعےکاطریقہ