مصنف
موضوع
کتاب النوادر کی منتخب احادیث
میسجز
موضوع کی تفصیل
سوال و جواب
رسول اکرم صلّی الله علیہ و آلہ وسلّم: “صلہ رحم (۱) عمر کو بڑھاتا ہے اور فقر کو ختم کر دیتا ہے”.
معاشرے میں لوگوں کے درمیان خاندانی اور رشتے داری کے تعلقات قائم رکھنے کے لیے اسلام میں صلہ رحم پر بہت زیاده توجہ دی گئی ہے. یہی وجہ ہے کہ آپ غیر اسلامی معاشروں کے مقابلے میں اسلامی معاشروں میں رشتے داری کے مضبوط جوڑ ملاحظہ کرتے ہیں.
کیونکہ #اجتماعی_زندگی کے حوالے سے اسلام کی بنیاد تمام صاحبان ایمان کے درمیان ارتباط، رحمدلی اور رشتے داری کے تعلقات کے حوالے سے ہے، یہاں تک کہ اسلام تمام مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے.
قدرتی طور پر وه مجموعے جہاں رشتے داری بھی موجود ہو تو وه آپس میں ارتباط رکھنے کے حوالے سے اولویت رکھتے ہیں. اسی لیے صلہ رحمی پر بہت زیاده تاکید کی گئی ہے.
اب (یہ حدیث میں بیان شده دو نتائج) یا قدرتی ارتباطات کی وجہ سے ہیں جس کے لیے ممکن ہے مختلف فرض تصوّر کیے جائیں کہ یہ دو قدرتی طور پر صلہ رحم کا نتیجہ ہیں؛
یا یہ وہی انسان کے لیے نامعلوم ارتباطات کا نتیجہ ہیں کیونکہ اس مادّی دنیا، زمین اور آسمان میں قسم قسم کے ایسے رابطے اور ارتباطات موجود ہیں جن میں سے انسانی علم نے اب تک ذره برابر یا اس سے کمتر بھی کشف نہیں کیے ہیں، البتہ یہ بھی قدرتی ارتباطات میں سے ہی ہیں.
رسول اکرم صلّی الله علیہ و آلہ وسلّم:
“پیغمبر اکرمؐ نے سراقہ سے فرمایا: کیا تمہیں بہترین صدقہ کی پہچان کرواؤں؟ اس نے کہا: جی ہاں یا رسول اللهؐ!
فرمایا: بہترین صدقہ تمہاری بیٹی اور بہن کی اس وقت مدد کرنا ہے جب وه تمہاری سرپرستی میں ہوں اور تمہاری مدد کے علاوه ان کے پاس پیسوں کے حصول کا کوئی اور راستہ نہ ہو”.
“امام علیؑ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ سے پوچھا گیا کہ بہترین صدقہ کونسا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ایسے رشتے دار کو صدقہ دینا جو انسان کا دشمن ہو”.
ایسا رشتے دار جو انسان کا دشمن اور برا چاہنے والا ہو. آپ اس صدقہ دینے کے ذریعے دو کام کرتے ہیں.
ایک یہ کہ اپنے پیسوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور اسے راه خدا میں دے دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اپنے ذاتی اور نفسانی احساسات کو نظرانداز کرتے ہیں کیونکہ اس رشتے دار کی مدد کرتے ہیں جو آپ کا دشمن ہے.
خود یہ صدقہ دینا اس کی محبت کے حصول کا سبب بنتا ہے اور خاندانی ارتباطات کو مزید مستحکم کرتا ہے.
امیرالمؤمنین علیؑ ابن ابی طالبؑ نے رسول اللهؐ سے نقل فرمایا:
قِيلَ يَا رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ أَيُّ اَلصَّدَقَةِ أَفْضَلُ فَقَالَ جُهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ يَسِيرُ إِلَى فَقِيرٍ
“پیغمبر اکرمؐ سے سوال ہوا کہ کونسا صدقہ بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وه کوشش جو ایک تنگ دست انسان کسی غریب کی مالی مدد کرنے کے لیے انجام دیتا ہے”.
یعنی ایک تنگ دست انسان جس کے پاس زیاده مال نہ ہو لیکن وه اپنی استطاعت کے مطابق کسی غریب کی بھی مدد کرے تو یہ بہترین صدقہ ہے.
امیروں اور بڑے لوگوں کی جانب سے انجام دیے جانے والے بعض کام جو وه انجام دیتے ہیں، بہت زیاده خرچ کرتے ہیں، خاص قسم کی دعوتیں وغیره جو غریبوں تک بھی نہیں پہنچتیں اور صدقہ شمار نہیں ہوتیں، اگر وه صدقہ شمار بھی ہوں تب بھی بہترین صدقہ نہیں.
ایک تنگ دست انسان جو خود بھی مالی حوالے سے کمزور ہو، وه کسی کی مدد کرے، ایک غریب آدمی کی خبرگیری کرے اور اس کی طرف قدم بڑھائے تو یہ بہترین صدقہ ہے.
امیرالمؤمنین علیؑ ابن ابی طالبؑ نے رسول اللهؐ سے نقل فرمایا:
مَا نَقَصَ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ فَامْضُوا وَ لَا تَجَنَّبُوا
“#صدقہ مال کو کم نہیں کرتا لہذا صدقہ دو اور ہاتھ نہ روکو”
صدقہ مال کو کم نہیں کرتا. وه لوگ جو ڈرتے ہیں کہ اگر ہم صدقہ دیں تو ان کے اموال کم ہو جائیں گے وه جان لیں کہ صدقہ انسان کے اموال کو کم نہیں کرتا. یہ بھی ایک حکمت ہے اور دنیا کے ان عجیب حقائق میں سے ہے.
جاؤ صدقہ دو، ہاتھ نہ روکو. البتہ واضح ہے کہ صدقے سے مراد وہی ہے جو قرآن میں ہے: وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا (سوره اسراء: 29) یعنی “اور خبردار نہ اپنے ہاتھوں کو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دو اور نہ بالکل پھیلا دو کہ آخر میں قابلِ ملامت اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاؤ”.
ایسا نہ ہو کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہو یا نہ ہو سب کچھ اٹھا کر غریبوں کی مدد کے عنوان سے دے دے، نہیں! صدقہ یعنی اپنے مال کا کچھ حصہ دینا، اپنے مال میں سے کوئی چیز دینا، وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ، لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (سوره معارج: 24-25) یعنی “اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے، مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے”، یہ ہے صدقہ؛
ورنہ اس طرح نہ ہو کہ آپ کہیں: لوگوں جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے اور جو کچھ نہیں ہے سب کچھ دے دو، ختم نہیں ہوگا!
امیرالمؤمنین علیؑ ابن ابی طالبؑ نے رسول اللهؐ سے نقل فرمایا:
“قیامت میں سارے لوگ الله تعالی سے بلاواسطہ کلام کریں گے. لہذا جب کوئی شخص آگے کی طرف نگاه کرے گا تو پہلے سے بھیجے گئے اپنے اعمال کے علاوه کچھ بھی نہیں پائے گا. پھر جب اپنے دائیں جانب نگاه کرے گا تو پہلے سے بھیجے اعمال کے علاوه کچھ نہیں پائے گا، پھر بائیں جانب نگاه کرے گا تو الله کی دوزخ کی آگ کو دیکھے گا …”.
یہ قیامت کے مناظر کی بحث انتہائی اہم قرآنی ابحاث میں سے ایک ہے جو قیامت کے مرحلے کو ہمارے لیے قابل احساس انداز میں اور ہماری سمجھ کے مطابق تصاویر کے ساتھ بیان کرتی ہے. یقینی طور پر ان میں غوروفکر کرنا اور انہیں سمجھنا ہم جیسوں کے لیے بہت آسان نہیں مثلاً الٹے اور سیدھے میں کیا فرق ہے.
قرآن میں دو جگہ پر مومنین کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم (سوره حدید: 12؛ سوره تحریم: 08) یعنی “ان کا نورِ ایمان ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے”.
یہ ایک علامتی معنی بھی رکھتے ہیں جنہیں ہم مادّی دنیا میں ہونے کی وجہ سے اپنے اندر موجود اتنی زیاده محدودیتوں کے ساتھ تصوّر نہیں کر سکتے کیونکہ وه عظیم، نامحدود اور عجیب مرحلے ہیں.
قیامت کا حال دنیاوی حساب و کتاب سے بالکل الگ ہے، حتی برزخ کا حال بھی جو روز قیامت سے بہت مختلف ہے. البتہ ایک چنگاری کی حد تک روشنی یا چھوٹی کھڑکیاں جو ہماری آنکھوں کے سامنے کھلتی ہیں تا کہ مبہم ہی صحیح، ایک تصویر ہمارے ذہن میں بن جائے. بہرحال شاید اس سے مراد یہ ہو کہ انسان اچھے اعمال کو ایک طرف اور برے اعمال کو دوسری طرف مشاہده کرے گا. اس کے بعد فرماتے ہیں کہ … (جاری ہے)