مصنف
آیت الله محمد تقی مصباح یزدیؒ
موضوع
مہدویت آیت الله مصباح یزدی کی نگاه میں
میسجز
+8 میسجز

اگر آپ بینرز کے لیے اعلیٰ کوالٹی کے پوسٹرز چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔

موضوع کی تفصیل
آیت الله محمد تقی مصباح یزدی رحمت الله علیہ کے مختلف مواقع پر مہدویت کے حوالے سے بیان کیے گئے معارف سے اقتباس کیے گئے میسجز کی
سیریز کے مکمل میسجز

الله تعالی کے علاوه پیغمبر اکرم (ص) اور آئمہؑ بھی اسی دنیا میں ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں. لہذا اگر ہمارے اعمال نیک اور صالح ہوں تو امام زمانہؑ انہیں دیکھ کر ہمارے لیے دعا کرتے ہیں؛ اور اگر ہم کوئی غلط کام کریں اور گناه انجام دیں تو اسے بھی امام زمانہؑ دیکھیں گے!
اس صورتحال میں اگرچہ وه اپنی شفقت اور مہربانی کی وجہ سے ہم پر لعنت نہیں کرتے لیکن ان کا ہمارے ان اعمال سے ناراض ہونا ہی کافی ہے کہ اس بات کا اثر ہم اپنی زندگی اور معاشرے میں دیکھیں!

امام زمانہؑ کے ایک صحابی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: آقا! میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی نظر میں میرا کیا مقام ہے؟ امامؑ نے فرمایا: دیکھو کہ ہماری منزلت اور مقام تمہارے نزدیک کتنا ہے؟ بالکل اتنا ہی جتنا تم ہمیں اہمیت دیتے ہو ہم بھی تمہیں اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں. بالکل اتنا ہی جتنا تم ہماری یاد میں ہوتے ہو ہم بھی اتنا ہی تمہاری یاد میں ہیں.
یہ ایک حقیقی رابطہ ہے. یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان خدا کی یاد میں نہ ہو لیکن یہ توقع رکھے کہ الله تعالی اپنے خاص اولیاء کی طرح اس کی طرف توجہ کرے گا.
یہ دو طرفہ رابطہ ہے. دھاگے کے ایک سرے کو ہلاؤ گے تو دوسری طرف بھی ہلے گی.
اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہارا ارتباط قائم رہے تو اس کی چابی تمہارے ہاتھ میں ہے. توجہ کے بٹن کو دباؤ تا کہ بلا فاصلہ ارتباط قائم ہو جائے. اس تک پہنچنے کا راستہ دور نہیں بلکہ خالصانہ توجہ کرنا کافی ہے.

امام زمانہؑ کا حقیقی انتظار کرنے والا شخص وه ہے جو اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے الله کے دین کی مدد کرے.
دین پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین اور اس کے احکامات کو سیکھیں؛ اور گھر والوں، جاننے والوں اور دیگر افراد سے میل جول کے طریقوں کو سیکھیں؛ کیونکہ کبھی کبھار انسان کے ایک صحیح کام کا کسی دوسرے شخص پر اثر کئی سو سال کی عبادت سے زیاده اہمیت رکھتا ہے.

شیعہ ہونا اور امام زمانہؑ کی ولایت میں واقع ہونا صرف دعوے کرنے سے ثابت نہیں ہوتا. ہم شناختی کارڈ کے ذریعے شیعہ نہیں بنتے.
ہم نام اور پہچان کے حساب سے تو شیعہ ہیں لیکن آئمہؑ کس حد تک ہمارے شیعہ ہونے کو قبول کرتے ہیں؟! وجودِ مقدسِ امام زمانہؑ کس حد تک ہمیں شیعہ اور اپنا حقیقی پیروکار سمجھتے ہیں؟!
وه ہمارے شناختی کارڈ کے تابع نہیں ہیں. ممکن ہے کہ بہت سے ایسے افراد جو نام سے شیعہ نہیں لیکن امام زمانہ (ارواحنا فداه) کے نزدیک وه ایسے بہت سے افراد سے زیاده معزز ہوں جو شیعہ ہونے کا عنوان رکھتے ہیں.

امام زمانہؑ کے مقدس وجود سے توسل کرنا وه تنہا چیز ہے جو ہمیں عظیم طوفانوں کی بلاؤں سے محفوظ رکھ سکتی ہے.
ضروری ہے کہ ہم اپنے نفس اور شیطان کے شر سے الله کی اس مضبوط رسی کے ذریعے پناه طلب کریں جو الله تعالی نے اپنے اور مخلوقات کے درمیان قرار دی ہے تا کہ محفوظ رہیں.

امام زمانہ (عج) ہر جگہ خاص طور شیعوں کی محفلوں میں تشریف لاتے ہیں، اس قدر کہ اگر کوئی انہیں سلام کرے تو اسے جواب دیتے ہیں لیکن ہمارے کان ان کے کلام کو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے.
اگر کوئی ان سے مدد طلب کرے تو اسے جواب دیتے ہیں، اگر کوئی بیابان میں کھو جائے اور انہیں پکارے تو جلد ہی اس کی مدد کرتے ہیں، اس کی رہنمائی کرتے ہیں اور آپؑ بچارگی کا شکار مریض کو شفا دیتے ہیں.
ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وه موجود ہیں اور سنتے ہیں کیونکہ اگر موجود نہ ہوتے اور نہ سنتے تو پھر کیسے جب کوئی سمندر کی تہہ میں یا بیابان میں مصیبت کا شکار ہو جاتا ہے اور انہیں پکارتا ہے تو آپؑ فوری طور پر اس کی مدد کے لیے اقدام کرتے ہیں اور اسے نجات دلاتے ہیں؟

اگر ہم امام زمانہ (عجل الله تعالی فرجہ الشریف) کے فرج کے منتظر ہوں گے تو پھر معاشرے میں اس کے لیے کوشش بھی کریں گے.
لیکن جب انسان مایوس ہو جائے اور یہ گمان کرے کہ وه کوئی کام نہیں کر سکتا تو وه آسانی سے موت کے سامنے تسلیم ہو جاتا ہے.
صرف وه شخص اس دنیا میں بامقصد زندگی گزارتا ہے جو امام زمانہ ارواحنا فداه کے ظہور کا منتظر ہو.

جب ہم نے یہ یقین حاصل کر لیا ہے کہ امام زمانہؑ ہمارے کردار و عمل اور ہمارے ضمیر سے ہمیشہ آگاه ہیں،
اور صرف مشکل حالات میں ایسا نہیں ہوتا
تو پھر ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی ایسا کام سرزد نہ ہونے پائے کہ وه ہم سے رنجیده ہوں اور ان کا دل دکھے!

امام زمانہ (عج) کے دیدار سے محرومی کی ایک وجہ قطع رحمی کرنا ہے، ایک اور اہم ترین وجہ مال جمع کرنے کی فکر ہے.
علی ابن مہزیار جس نے امام زمانہؑ سے ملاقات کی امید میں #20_حج انجام دیے تھے، انہیں اپنے اکیسویں حج کے سفر میں امام زمانہؑ کے حضور میں پہنچنے کا شرف نصیب ہوا.
اس جوش و جذبے سے بھرپور ملاقات میں ہمارے مولا صاحب الزمانؑ کی جانب سے علی ابن مہزیار کو بیان کیے جانے والے ابتدائی مطالب میں سے ایک بات یہ تھی کہ “اے ابوالحسن! ہم دن رات تمہارے انتظار میں تھے تو پھر کونسی چیز تمہارے ہمارے پاس آنے میں تاخیر کا سبب بنی؟
اس نے جواب دیا: اب تک کسی کو نہیں پایا جو مجھے آپؑ کی طرف ہدایت کر سکتا

#امام_مہدیؑ نے فرمایا: “کیا تمہیں کوئی بھی نہیں ملا جو تمہیں رہنمائی کرتا؟! نہیں! ایسا نہیں ہے!! بلکہ تم اپنا مال بڑھانے کی فکر میں لگ گئے، (اپنی خرید و فروخت میں) کمزور مومنین کو پریشانی کا شکار کیا اور آپس میں قطع رحمی اختیار کی!!”.