مصنف
رہبر معظم آیت الله خامنہ ای
موضوع
میسجز
موضوع کی تفصیل
سوال و جواب
کمرکس لینا، تیار ہوجانا،
خود کو ہر رخ سے (تیار کر لینا)،
وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہوگا
وہ عدل و انصاف قائم کرنے،
انسانی زندگي کو الہی زندگي بنانے
اورخدا کی بندگي رواج دینے سے عبارت ہے
اور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔
ہماری عادت یہ ہونی چاہئے کہ
ہم ہمارا پورا خلوص،
پوری فداکاری،
پوری محبت
اور ہمارا پورا دل
اس عظیم شخصیت (امام زمانہؑ) کی خدمت میں پیش کریں.
منتظرین امام زمانہؑ کی سب سے بڑی ذمه داری یہ ہے کہ:
اپنے آپ کو روحانی، اخلاقی اور عملی لحاظ سے آماده کریں،
اور اپنے آپکو مومنین کے ساتھ دینی، اعتقادی اور احساسی روابط کے سلسلے میں آماده کریں،
اور اسی طرح ظالموں سے لڑنے کے لئے اپنے کو آماده کریں.
ان چیزوں میں سے کہ جو ایک بہت بڑا خطره بن سکتی ہیں، ایک چیز یہ ہے کہ امام زمانہ (عجّلاللَّه تعالی فرجه الشّریف) کے بارے میں ساده، جاہلانہ، معرفت سے دور اور سند اور دلیل کے بغیر کاموں کو انجام دیا جائے کیونکہ اسی طرح کے کام جھوٹے دعوے داروں کو موقع فراهم کرتے ہیں.
ایسا معاشره جس کا عقیده #مهدویت ہو، قوت قلبی حاصل کر لیتا ہے.
ظہور مہدیؑ موعود(ارواحنا فداه) کے لئے ضروری ہے کہ زمینہ سازی ہو؛
(اور زمینہ سازی) سے مراد اسلامی احکامات پر عمل کرنا اور قرآن و اسلام کی حاکمیت ہے.
امام زمانہؑ ہمارے ہر اس کام سے خوشحال ہوتے ہیں کہ جو مسلمان ہونے اور پختہ ایمانی ارادے کی نشانی ہو.
ہم لوگ جو کہ امام زمانہؑ کے منتظِر ہیں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی آج کی زندگی کو اسی طرز پر تعمیر کریں کہ جس طرز پر امام زمانہؑ اپنی حکومت تشکیل دیں گے!!
حجت خدا (امام زمانہؑ) لوگوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں؛ ان کو دیکھتے ہیں؛ ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتے ہیں. وه لوگ جو خوش قسمت ہیں کبھی نا آشنائی کے عالم میں ان کی زیارت کرلیتے ہیں.
(یقیناً) وه زمانہ آئے گا کہ جس میں حق کی غلبہ پانے والی قدرت ظلم و فساد کی تمام چوٹیوں کو نابود کر دے گی اور انسانی زندگی کے منظر کو عدالت کے نور سے منور کر دے گی؛
یہ ہے امام زمانہؑ کے دورانِ (حکومت) کے انتظار کا مطلب.
اسلامی نظام میں کہ جس کا کامل ترین جلوه امام زمانہ (ارواحنا فداه) کی حکومت ہے،
لوگوں کی رائے کو اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے فریب و دهوکہ دهی خود ایک جرم ہے؛ پیسے حاصل کرنے کے لئے قدرت و مقام سے استفاده کرنا انتہائی بڑے جرائم میں سے ایک ہے؛ وہاں(حکومتِ امام زمانہؑ میں) امام مهدیؑ کے ساتھیوں کی ذمہ داری ہے کہ نچلی سطح کی زندگی گزاریں؛
ہمارا اسلامی نظام اس روشن و تابناک حقیقت کی ایک کرن ہے. ہم نے ہرگز یہ دعوی نہیں کیا اور نہ ہی کرتے ہیں؛ لیکن ضروری ہے کہ اس کا کچھ اثر رکھتے ہوں!
تقدیر الهی کو دعا، توسل، خلوص اور اپنے معاشرے کو صحیح کرنے کے ذریعے بدلا جا سکتا ہے.
یعنی اگر ابھی بھی ہم (اچھے)انسان بن جائیں اور (اچھے)انسانوں کی طرح عمل کریں تو فرض کریں اگر تقدیر الهی میں امام زمانہؑ کا ظهور ہزار سال بعد ہو تو ممکن ہے کہ وه بہت ہی نزدیک ہو جائے.
یعنی اگر ہم اچھے اور بھرپور طریقے سے عمل کریں تو یہ الهی تقدیر کو بدل دیتا ہے. (لیکن) اگر برا عمل کریں ”اشتّد غضبا” ہو جائے گا یعنی کام دور ہو جائے گا.
آج اگر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کونے کونے میں ظلم، ناانصافی، امتیازی سلوک اور زور و زبردستی موجود ہے، تو یہ وہی چیزیں ہیں جن سے مقابلے کے لیے امام زمانہ (عج) تشریف لائیں گے.
اگر ہم امام زمانہؑ کے سپاہی ہیں تو ضروری ہے کہ خود کو اس جنگ کے لئے تیار کریں!!
جو شخص اسلامی ملک کو درپیش خطرے کے وقت، اسلامی وطن، (اسلامی) اقدار اور اسلام کے لہرائے گئے پرچم کے دفاع کے لئے تیار ہو، وه یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اگر امام زمانہ (عج) آ جائیں تو ان کے پیچھے پُرخطر میدانوں میں قدم رکھے گا!!
لیکن وه لوگ جو خطروں، انحراف اور دنیا کی رنگینیوں کی وجہ سے ہار جاتے ہیں اور سست پڑ جاتے ہیں، وه لوگ جو اپنی ذاتی خواهشات کی وجہ سے تیار نہیں ہیں کہ وه کام کریں جس سے ان کے منافع کو خطره لاحق ہو جائے، یہ لوگ کس طرح امام زمانہ (عج) کے منتظر شمار ہو سکتے ہیں؟
وه شخص جو کہ عظیم اصلاح کرنے والے کے انتظار میں ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر اصلاح کے لئے آمادگی پیدا کرے اور کچھ ایسا کرے کہ اصلاح کے اجرا کے لئے قیام کر سکے.
ہمیں عادت کرنی چاہئے کہ اپنی تمام فداکاریاں اور قلبی توجہ امام زمانہ(عج) کو هدیہ کریں. اس عظیم هستی کے لئے دعا کرنا سبب بنتا ہے کہ وه دعا کرنے والے کے لئے دعا کریں. یہ مطلب ہماری روایات میں موجود ہے.
آاگر ہم سب عاشورائی بن جائیں، تو دنیا کی اصلاح کی طرف حرکت تیز، اور الله تعالی کے ولی مطلق(عج) کے ظہور کا راستہ ہموار ہو جائے گا.
ہمارے وه مومن جوان جو کہ مختلف میدانوں میں:
چاہے وه عبادت، معرفت اور معنویت کا میدان ہو،
چاہے کام کاج اور کوشش کا میدان ہو،
چاہے جدوجہد اور سیاست کا میدان ہو،
چاہے جہاد کا میدان ہو، اس دن کہ جب جہاد کی ضرورت ہو،
اس طرح اخلاص اور تروتازگی کے ساتھ عمل کرتے ہیں، امام زمانہ(عج) کو راضی اور خوشحال کرتے ہیں.
یہ توسل کرنا جو کہ مختلف زیارات میں وارد ہوا ہے(جن میں سے بعض کی روائی اسناد بھی اچھی ہیں) اور دور سے اس عظیم هستی سے توسل کرنا، متوجہ اور مانوس ہونا، ان کاموں کی اهمیت بہت زیاده ہے. (البتہ) اس مانوس ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ میں ان(امام زمانہؑ) کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں یا ان کی آواز کو سنتا ہوں؛ کسی صورت اس طرح نہیں ہے! اس معاملے میں زیاده تر جو کچھ کہا جاتا ہے وه ایسے دعوے ہیں کہ یا جھوٹ ہیں، یا دعوی کرنے والا جھوٹ تو نہیں بولتا بلکہ (اس طرح) تصور کرتا ہے اور خیال کرتا ہے.
صدیوں پر محیط طولانی مدت میں انسان نے ٹیڑھے میڑے، غلط، سخت اور مشکل راستوں، مختلف قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے، تکلیف اٹھائے جسم اور زخمی پیروں کے ساتھ ان راستوں پر حرکت کی ہے تا کہ اپنے آپ کو اس اصلی شاهراه تک پہنچائے. یہ اصلی شاهراه وہی ظهور کے زمانے کی شاهراه ہے، وہی ظهور کے زمانے کی دنیا ہے کہ حقیقتاً ایک لحاظ سے انسانیت کی حرکت وہاں سے شروع ہوگی.
….. ایسا نہیں کہ (ظہور کے بعد) حرکت رک جائے؛ نہیں! بلکہ وہاں سے تو بلندوبالا الہی اہداف کی جانب حرکت شروع ہو گی، کیونکہ انسان کی صلاحیتیں ایک ختم نہ ہونے والی صلاحیتیں ہیں.
وه مقاصد جو امام زمانہ(عج) اپنے پیش نظر رکھیں گے اور ان پر عمل کریں گے، آج ہمارے لوگوں کے وہی اهداف ہیں؛ ایک ملک اور حکومت کے اهداف ہیں. یہ خود امام زمانہ(عج) کے مقاصد کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے!!
ایک زمانے میں توحید، معنویت اور دینداری کا نعره دنیا میں منسوخ ہو گیا تھا؛ انہوں نے کوشش کی تھی کہ اسے مکمل طور پر بھلا دیں؛ لیکن آج دنیا کے اس خطے میں یہ نعرے، حکومت کے سرکاری نعرے ہیں،
….. اس کے علاوه یہ نعرے دنیا کے بہت سے ممالک کی مسلمان ملتوں کی آرزو ہیں اور یہ نعرے ایک دن (ضرور) عملی جامہ پہنیں گے.
امام مہدی علیہ السلام کا انتظار انسان کے کاندهوں پر ذمہ داری ڈالتا ہے.
جب انسان کو یہ یقین ہے کہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے تو ضروری ہے کہ (لوگ) منتظر رہیں اور خود کو تیار کریں.
امام زمانہ (عج) عدالت کی علامت، اور زمین پر الله تعالی کی عدالت کا مظهر ہیں.
انتظار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں موجود ظلم و ستم، امام زمانہ (عج) کے منتظرین کے دلوں سے امید کے پھوٹتے چشمے کو ختم نہیں کر سکتا!
الله تعالی کے ولیّ اعظم (یعنی امام زمانہؑ) سے توسل اور قلبی رابطہ ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے.
لوگوں اور امام زمانہ(عج) کے درمیان قلبی اور معنوی رابطہ، امید اور انتظار کے جذبے کو مستقل طور پر لوگوں کے دلوں میں زنده رکھتا ہے اور یہ حالت با برکت ترین انسانی حالات میں سے ایک ہے.
مستقبل کے حوالے سے اعتماد اور امید ‘انتظار’ کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے کہ اس کے ذریعے خیر و خوبی کے راستے میں جدوجہد کا مطلب، معنی پیدا کرتا ہے
امام زمانہؑ آ کر یہ کام کریں گے، یعنی کیا!؟ آج آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟ آج آپ کے لئے کون سا کام انجام دینا ضروری ہے؟
ضروری ہے کہ آپ زمینہ سازی کریں تا کہ وه عظیم شخصیت آ سکیں اور ان سازگار حالات میں آ کر اقدام کریں. صفر سے تو کام شروع نہیں کیا جا سکتا! وه معاشره امام مهدی (عج) کو قبول کر سکتا ہے کہ جس میں ان کے لئے آمادگی اور قابلیت پائی جاتی ہو، ورنہ طولِ تاریخ میں موجود انبیاء اور اولیاء کی طرح ہو جائے گا.
وه کیا وجہ تھی کہ جس کی وجہ سے اکثر بڑے اولوالعزم انبیا آئے لیکن دنیا کو مہذب اور برائیوں سے پاک نہ کر سکے؟ کیوں؟ کیونکہ حالات آماده نہیں تھے!
امام مہدی (عج) پر اعتقاد، دلوں کو امید کے نور سے سرشار کر دیتا ہے.
نہ صرف پوری دنیا میں شیعہ بلکہ تمام مسلمان امام مہدی (عج) کے انتظار میں ہیں!!
ضروری ہے کہ آخری فَرَج (1) کے منتظر رہیں(کہ جو امام زمانہؑ کے ظہور کے بعد واقع ہو گا)، ساتھ ہی ساتھ لازم ہے کہ زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی مراحل میں فَرَج کے منتظر رہیں. اجازت نہ دیں کہ آپ کے دل پر مایوسی حاکم ہو، فَرَج کے منتظر رہیں اور یہ جان لیں کہ فَرَج ضرور واقع ہو گا؛
البتہ یہ اس بات سے مشروط ہے کہ آپ کا انتظار حقیقی ہو، یعنی اس کے ساتھ عمل ہو، کوشش ہو، جذبہ ہو، حرکت ہو.
(روایات میں آئمہؑ کی جانب سے) انتظارِ فرج کو افضل ترین “عمل” قرار دیا گیا ہے.
پتہ چلتا ہے کہ انتظار ایک “عمل” ہے، “بے عملی” نہیں!!
#انتظار یعنی “تیار رہو!”
مومن اور منتظر انسان وه ہے جو ہر حال میں تیار رہے.
حجت خدا (امام زمانہؑ) لوگوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں؛ ان کو دیکھتے ہیں؛ ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتے ہیں. وه لوگ جو خوش قسمت ہیں کبھی نا آشنائی کے عالم میں ان کی زیارت کرلیتے ہیں.
ایک دستاویز میں جو میں نے دیکھی، استعمار کے بڑے اور کمانڈرز سفارش کرتے ہیں کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ایسا کام کریں جس سے لوگوں کے درمیان موجود مہدویت پر عقیده تدریجاً ختم ہو جائے!!
اس زمانے میں فرانسوی اور انگلستانی استعمارگر کچھ افریقی ممالک میں تھے، (البتہ) کوئی فرق نہیں پڑتا کہ استعمارگر کہاں سے تعلق رکھتا ہو؛ بیرونی استعمارگر جس نتیجے پر پہنچے وه یہ تھا کہ:
جس وقت تک مہدویت کا عقیده ان لوگوں کے درمیان رائج ہے ہم ان کے ملکوں کو صحیح طریقے سے اپنے کنٹرول میں نہیں لے سکتے!!
دیکھیں، مہدویت پر عقیده کس قدر اہم ہے!
ان شاء الله آپ سب بھی اور ہم سب بھی یہ توفیق حاصل کریں کہ ایک دن امام زمانہ (عج) کی رکاب میں ہوں، الله تعالی کے لئے کوشش اور جہاد کریں، اس عظیم شخصیت کی آنکھوں کے سامنے اپنی جان راهِ خدا میں قربان کر دیں اور شہادت کی سعادت تک پہنچ جائیں جو کہ سب سے بڑا شرف اور افتخار ہے؛
اور ظہور ہونے سے پہلے بھی، غیبت کے زمانے میں، الله تعالی توفیق عطا فرمائے کہ ہم آپؑ کے سپاہی، آپؑ سے توسل کرنے والے اور آپؑ کو یاد رکھنے والے ہوں اور آپ (عج) سے دلی اور روحی انس اور رابطہ برقرار کریں.
اگر آپ اس طرف سے مانوس ہوئے تو اس طرف سے بھی توجہ، یاد اور لطف و محبت حاصل ہو گی.
امید کرتے ہیں کہ ان شاء الله تمام مشکلات، تمام رکاوٹیں اور ساری سختیاں اور رنج اس دو طرفہ رابطہ کی برکت سے، الله تعالی کے فضل اور اس کے دستِ قدرت سے ختم ہو جائیں.
اس زمانے کے معاشرے کے بارے میں کچھ مطالب عرض کرتا ہوں. البتہ اگر آپ اسلامی کتابوں میں، اصلی اسلامی مکتوبات میں غور کریں تو اس معاشرے کی ساری خصوصیات ہاتھ میں آ جائیں گی. اسی دعائے ندبہ میں جو جمعہ کے دن پڑھی جاتی ہے، ان شاء الله کہ اسے پڑھنے میں کامیاب ہوں؛ اور (ویسے تو) آپ پڑھتے ہی ہیں، اس معاشرے کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں.
اس جگہ کہ جہاں فرماتے ہیں “أیْنَ مُعِزُّ الأوْلِیَاءِ وَ مُذِلُّ الْأعْدَاء” مثلاً وه معاشره ایک ایسا معاشره ہے جس میں اولیاء خدا عزت دار ہیں اور دشمنان خدا اس معاشرے میں ذلیل و خوار ہیں، یعنی اس معاشرے کے اقدار اور معیار اس طرح کے ہیں.
«أَیْنَ الْمُؤَمَّلُ لِإِحْیاءِ الْکِتابِ وَ حُدُودِهِ» وه معاشره ایک ایسا معاشره ہے کہ جہاں الهی حدود نافذ ہوں گی یعنی تمام حدیں اور قوانین جو الله تعالی نے معین کیے اور اسلام نے معین کیے ہیں، امام زمانہؑ کے زمانے کے معاشرے میں ان تمام حدوں اور قوانین کی پاسداری کی جائے گی .
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
امام زمانہؑ اپنے معاشرے کو ان چند اصولوں پر کھڑا کریں گے… (جن میں سے ایک) ظلم و سرکشی کو جڑوں سے نیست و نابود کر دینا ہے.
یعنی وه معاشره جو امام زمانہؑ کے دور میں بنایا جائے گا، ضروری ہے کہ اس میں ظلم و ستم نہ ہو، یہ نہیں کہ صرف ایران میں نہ ہو، یا صرف مسلمانوں کے معاشروں میں نہ ہو بلکہ لازمی ہے کہ پوری دنیا میں ظلم و ستم نہ ہو.
نہ اقتصادی طور پر ظلم، نه سیاسی طور پر، نہ ثقافتی طور پر اور نہ ہی کسی بھی اور قسم کا ظلم اس معاشرے میں موجود ہو گا.
ضروری ہے کہ دنیا میں لوگوں سے ناجائز معاشی فائده اٹھانا، ان کے درمیان طبقاتی اختلاف، تعصب، مساوات کا نہ ہونا، زور زبردستی، بدمعاشی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے !
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
امام زمانہؑ جس مثالی معاشرے کو قائم کریں گے اس کی ایک اور خصوصیت انسانوں کی فکری سطح کا بڑھنا ہے؛ علمی فکری سطح بھی اور اسلامی فکری سطح بھی.
یعنی امام زمانہ (عج) کے دور میں آپ جہالت، فکری اور ثقافتی غربت کو بالکل نہیں پائیں گے. وہاں لوگ دین کو بالکل صحیح طریقے سے پہچان سکیں گے اور یہ چیز، جس طرح کہ آپ جانتے ہیں، انبیاء کے بڑے اہداف میں سے ایک ہے کہ امیرالمومنین صلوات الله و سلامہ علیہ نے اس بات کو نہج البلاغہ کے خطبے میں بیان کیا ہے « وَ يُثيرُوا لَهُمْ دَفائِنَ الْعُقُولِ » یعنی “اور ان پوشیده عقلوں کو جو کفر کے غبار اور گمراہی کی تاریکی میں چھپ گئیں تھیں کو باہر نکالیں اور انہیں صحیح طرح کام پر لگائیں”.
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
ہماری روایات میں نقل ہوا ہے کہ جب امام زمانہؑ ظہور کریں گے تو ایک عورت جو اپنے گھر میں ہو گی، قرآن کھولے گی اور قرآن کے متن سے دین کے حقائق کو نکال لے گی اور سمجھ جائے گی، یعنی کیا؟
یعنی اسلامی اور دینی ثقافت کی سطح اس قدر بڑھ جائے گی کہ تمام انسان اور معاشرے کے تمام افراد اور وه خواتین جو فرض کریں اجتماعی کاموں میں بھی شرکت نہ کریں اور گھر میں رہیں وه بھی فقیہ بن سکتی ہیں، عالم دین بن سکتی ہیں. خود ہی قرآن کو کھول کر دین کے حقائق کو قرآن سے سمجھ سکتی ہیں.
آپ غور کریں کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مختلف سطح کے مرد و عورت قرآن سے دینی مطالب کو نکالنے(استنباط) کی صلاحیت رکھتے ہیں وه معاشره کتنا نورانی ہے اور پھر تاریکی کا کوئی نکتہ اس معاشرے میں موجود نہیں ہو سکتا. یہ افکار اور روش میں اتنا اختلاف پھر اس معاشرے میں معنی نہیں رکھتا.
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
مہدویؑ معاشرے کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس زمانے میں کائنات اور انسانوں میں موجود تمام طاقتیں اور صلاحیتیں سامنے آ جائیں گی. زمین کے دامن میں کوئی ایسی چیز نہیں بچے گی جس سے انسان فائده نہ اٹھائے.
کائنات میں موجود یہ اتنی ساری بیکار پڑی ہوئی توانائیاں، یہ اتنی ساری زمینیں جو انسانوں کے لیے غذا فراہم کر سکتی ہیں، یہ اتنی ساری توانائیاں جو ابھی تک کشف نہیں ہوئیں، ان توانائیوں کی طرح جو صدیوں سے تاریخ میں موجود تھیں مثلاً ایٹمی انرجی، بجلی اور الیکٹریسٹی؛ اس دنیا کی زندگی کے سینکڑوں سال گزرتے جا رہے تھے اور یہ توانائیاں کائنات کے دامن میں موجود تھیں لیکن انسان انہیں پہچانتا نہیں تھا اور بعد میں یہ تدریجاً کشف ہوئیں.
اس طرح کی بے شمار توانائیاں جو کائنات کے دامن میں موجود ہیں، امام زمانہؑ کے زمانے میں کشف ہوں گی.
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
امام زمانہؑ کے دور کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آپؑ کے زمانے میں مرکز و محور “فضیلت و اخلاق” ہے.
جو کوئی بھی زیاده اخلاقی فضیلت رکھتا ہے، وه افضل اور برتر ہے.
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
ایک اور روایت میں فرماتے ہیں « اَلْقائِمُ مِنّا مَنْصُورٌ بالرُّعْبِ مُؤَیَّدٌ بِالنَّصْرِ تُطْوی لَهُ الاَرْضُ وَ تُظْهَرُ لَهُ الکُنُوزُ یَبْلُغُ سُلْطانُهُ الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ » یعنی ہمارے قائم (امام مہدیؑ) “رُعب” کے ذریعے سے مدد پائیں گے اور ظالم و ستمگر حکومتوں اور مجموعوں پر ان کا رعب طاری ہو جائے گا.
یہ وه چیز ہے جس کا ایک چھوٹا نمونہ ہم آج اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں. آج ہماری حکومت، معاشره اور اسلامی نظام جو حکومت اسلامی کے قطروں میں سے ایک قطره ہے، اس عظمت الهی اور الهی سلطنت کے بحر میں سے ایک قطره ہے، اس نے اس طرح سے دنیا کے قدرتمندوں اور ظالموں پر رعب ڈال دیا ہے کہ خود یہ رعب ہماری ملت کی کامیابی کا ذریعہ بن گیا ہے…
…ایک ایسی حالت امام زمانہؑ کے زمانے میں اس طرح ہر طرف پھیلی اور عام ہو گی کہ اس عالمی حکومت کو وجود میں لا سکے.
« مُؤَیَّدٌ بِالنَّصْرِ » الله کی نصرت ان کی تائید کرے گی. زمین ان کے سامنے لپیٹ دی جائے گی یعنی ان کے اختیار اور قبضہ قدرت میں قرار دے دی جائے گی. خزانے ان کے لیے ظاہر ہو جائیں گے اور ان کی طاقت و قدرت زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل جائے گی. (10 اپریل، 1987)
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
امام محمد باقرؑ سے منقول ایک اور روایت میں ہے کہ «حتی اذا قام القائم جاءت المزایله و اتی الرجل الی کیس اخیه فیأخذ حاجته لایمنعه» یعنی “جب قائمؑ قیام کریں گے تو حاجت مند انسان اپنے بھائی کی جیب سے کسی رکاوٹ کے بغیر اپنی ضرورت کے مطابق لے لے گا”.
یہ مساوات اور برابری چاہنے کے انسانی اخلاق کی طرف اشاره ہے، انسانوں کے ایثار اور قربانی کے جذبے کی طرف اشاره ہے.
یہ روایت ایسے حالات کی خوشخبری سناتی ہے کہ جس میں انسانوں کے دل کنجوسی اور لالچ کی صفات پر غلبہ پا لیں گے جو کہ انسانوں کو ناکام بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھیں. ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کی جیب کی طرف جاتا ہے اور اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیتا ہے اور وه دوسرا کوئی رکاوٹ ایجاد نہیں کرتا.
یہ بات درحقیقت اس صحتمند اسلامی، اقتصادی، اخلاقی اور اجتماعی نظام کی حقیقت کو بیان کرنے والی ہے. یعنی زور زبردستی اور مجبور کیے جانے کے بغیر خود انسان اس کنجوسی اور لالچ کی بری انسانی صفات سے نجات پیدا کر لیں گے اور ایک اس طرح کی انسانی جنت وجود میں آئے گی.
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
…چند جملوں بعد فرماتے ہیں کہ « فَلا یبقی فی الارضِ خَرابٌ الا عُمِّرَ » یعنی یہ طاقت و قدرت دنیا کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال ہو گی، نہ انسانوں کے وسائل پر مسلط ہونے کے لیے اور انہیں کمزور اور ناتواں بنانے کے لیے!
پوری دنیا میں کوئی بھی جگہ جو ویران اور تباه حال ہو، تعمیر و ترقی کے بغیر نہیں رہے گی؛ اب چاہے وه ان ویرانیوں میں سے ہوں جو انسان کے ہاتھوں انجام پائی یا ان ویرانیوں میں سے جو انسان کی جہالت کی وجہ سے انسانوں پر تھوپی گئیں!
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
ایک اور روایت میں ہے کہ «إِذَا قَامَ قَائِمُنَا اضْمَحَلَّتِ الْقَطَائِعُ فَلَا قَطَائِعَ» یعنی “جب ہمارے قائمؑ قیام کریں گے تو زمینوں کو خراج کے طور پر دیے جانے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا…”
یہ جو دنیا کی متکبر حکومتیں اپنے دوستوں اور یاروں کو ہمیشہ سخاوت کرتے رہتے ہیں، حاتم طائی کی سخاوتیں، ملتوں کی جیب سے اِسے اور اُسے سخاوتیں، اس وقت اس طرح کی چیزوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی.
“قطیعہ”(خراج) جو ماضی میں ایک طرح سے تھی، آج اس نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے. ماضی میں اس طرح ہوتا تھا کہ کوئی خلیفہ، کوئی بادشاه زمین کا کوئی ایک ٹکڑا، کوئی صحرا، کوئی دیہات، کوئی شہر، کبھی ایک صوبے کو کسی ایک شخص کو بخش دیتا تھا اور کہتا تھا جاؤ وہاں جو دل چاہے کرو، لوگوں سے ٹیکس لو، وہاں کے کھیتوں سے استفاده کرو، جس طرح کا بھی مالی فائده ہو تیرا، (البتہ) ایک حصہ اس بادشاه کو بھی ضرور دیا جاتا.
آج بھی تیل، تجارت، صنعت، فنی اور بڑی صنعتوں میں مختلف قسم کی اجاره داری درحقیقت قطیعہ کا حکم ہی رکھتی ہیں، جبکہ یہ اجاره داریاں ملتوں کو بےچاره کر دینے والی ہیں… یہ سب بھی حکومتوں کے ساتھ سازشوں اور رشوت دینے اور رشوت لینے سے ممکن ہو پاتا ہے!
یہ انسانوں اور فضیلتوں کو تباه و برباد کرنے والے میدان بھی نابود ہو جائیں گے اور انسانوں کے فائدے کے وسائل تمام انسانوں کی دسترس میں آ جائیں گے.
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
ایک اور روایت میں بھی اقتصادی حالت ہی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ «و یسوی بین الناس حتی لاتری محتاجاً الی زکاة» (یعنی) لوگوں کے درمیان مالی اور اقتصادی لحاظ سے ایسی مساوات اور برابری قائم کریں گے کہ آپ ایک بھی ایسا انسان ڈھونڈ نہیں پائیں گے جسے زکات دے سکیں؛
اور اس صورتحال میں طبیعی طور پر یہ زکات اجتماعی اور عمومی چیزوں پر خرچ ہو گی…
اور اسی طرح کی دوسری روایات جو ایک اسلامی جنت اور حقیقی دنیا کی تصویر دکھاتی ہیں، یہ تصویر دوسرے مدینہ فاضلہ (مثالی معاشروں) کی طرح صرف خیالی اور وہمی نہیں جنہیں بعض دانشوروں نے پیش کیا ہے بلکہ یہ وہی اسلامی نعرے ہیں جو سب کے سب علمی ہیں اور ہم جمہوری اسلامی میں اسے محسوس کر رہے ہیں کہ:
واقعاً ایک طاقتور ہاتھ اور ایک دل و فکر جو وحی اور تائید الہی سے متصل ہو اور ایک معصوم یقیناً یہ کام کر سکتے ہیں کہ دنیا میں ایک ایسی صورتحال کو وجود میں لے آئیں اور انسانیت بھی اس کا استقبال کرے گی. یہ ظہور کے زمانے کی دنیا کی صورتحال ہے. (10 اپریل، 1987)
#امامزمانہؑکیحکومتکی_خصوصیات
کیوں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلاة والسلام اپنے زمانے میں، اسی حکومت کے مختصر سے عرصے میں،
اس قدرتِ الهی کے ساتھ،
اس خدا کے خزانے سے متصل علم کے ساتھ،
اس قوی ارادے کے ساتھ،
اس عظیم ہستی میں موجود ان زیبائیوں اور نورانیت کے باوجود،
اور رسول اکرمؐ کی آپؑ کے بارے میں ان سفارشات کے باوجود،
کامیاب نہ ہوئے کہ برائی کو جڑوں سے اکھاڑ سکیں؟!
خود اس عظیم ہستی کو راستے سے ہٹا دیا! «قتل فی محراب عبادته لشدّة عدله» امیرالمومنینؑ کی عدالت کا تاوان ان کی جان تھی جو ہاتھ سے چلی گئی!
کیوں؟ کیونکہ میدان، سازگار میدان نہیں تھا. حالات کو خراب کر دیا تھا. ماحول کو دنیاطلبی کا ماحول میں بنا دیا تھا! وه لوگ جنہوں نے علوی حکومت کے آخری یا درمیانے حصے میں امیرالمومنینؑ کے خلاف صف آرائی کی، یہ وه لوگ تھے کہ جن کی دینی بنیادیں مستحکم نہیں تھیں اور وه مضبوط دینی جذبہ نہیں رکھتے تھے. آماده اور تیار نہ ہونا اس طرح کی عظیم تباہیوں کو جنم دیتا ہے!
تو پھر اگر امام زمانہ علیہ الصلاة والسلام ایک ایسی دنیا میں جو تیار اور آماده نہیں ہے، تشریف لے آئیں تو دوباره وہی ہو گا! ضروری ہے کہ آمادگی اور تیاری ہو!!
انہیں ذکر شده زیارات کے مطابق جن میں سے کچھ معصومینؑ سے بھی نقل ہوئی ہیں اور اس بات کا احتمال زیاده ہے کہ یہ مستند زیارات ہیں، یہ امام زمانہ (عج) اور لوگوں کے درمیان قلبی اور روحانی رابطہ ایک پسندیده کام ہے، بلکہ یہ ضروری ہے اور اس کے اثرات ہیں کیونکہ یہ کام امید اور انتظار کو مستقل طور پر انسان کے دل میں زنده رکھتا ہے.
انتظار انسان کے با برکت ترین حالات میں سے ایک ہے؛ وه بھی ایک عدل و انصاف کے نور سے روشن دنیا کے انتظار میں. «یملأ اللَّه به الارض قسطا و عدلا» الله تعالی امامِ زمانہؑ کے ہاتھوں سے انسانوں کی سرزمین اور پوری زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا.
ایسے دن کا انتظار کرنا ضروری ہے. اس بات کی بالکل بھی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ شیطانوں کے تسلط اور دنیا بھر کے طاغوتوں کے ظلم و دشمنی، امید کے شعلے کو دل میں بجھا دیں. ضروری ہے کہ انتظار کریں. انتظار ایک عجیب چیز ہے اور اس کے مختلف پہلو ہیں.
انتظار کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو مستقبل کے حوالے سے پراعتماد اور امیدوار ہونا اور مایوس نہ ہونا ہے. یہی انتظار کی روح ہے جو انسان کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ اچھائی اور اصلاح کی راه میں جدوجہد کرے.
اگر امید اور انتظار نہ ہو تو جدوجہد کا کوئی معنی نہیں بنتا اور اسی طرح اگر مستقبل کے بارے میں اطمینان نہ ہو تو بھی انتظار کا کوئی معنی نہیں بنتا.
حقیقی انتظار، اطمینان اور امید کے ساتھ جڑا ہوا ہے. وه شخص جو آپ کو معلوم ہے کہ ضرور آئے گا، آپ اس کا انتظار کرتے ہیں؛ اور اس شخص کا انتظار جس کے آنے کا آپ کو اعتماد اور اطمینان نہیں، حقیقی انتظار نہیں ہے.
اعتماد، انتظار کے لئے لازمی چیز ہے اور یہ دونوں امید کے لئے لازمی ہیں؛ اور آج یہ امید تمام ملتوں اور دنیا کے لوگوں کے لئے ایک ضروری چیز ہے!!
ہم جو امام زمانہؑ کے منتظر ہیں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی آج اپنی زندگی کو اسی جہت میں ڈھالیں کہ جس جہت میں امام زمانہ (عج) کی حکومت تشکیل پائے گی.
البتہ ہم اس سے کمتر ہیں کہ اس طرح جس طرح اولیاء الهی نے اپنی زندگیاں بنائیں یا بنائیں گے، بنا سکیں؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ اسی جہت میں کوشش اور کام کریں!
الله تعالی کے عدل کا مظہر امام زمانہؑ ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ امام زمانہؑ کی سب سے بڑی خصوصیت جو زیارات اور روایات میں ذکر ہوئی ہے وه عدالت ہے: «یملأ اللَّه به الارض قسطا و عدلا». ہمارے لئے ضروری ہے کہ آج ہم اپنے معاشرے کو عدل کا معاشره بنائیں!
ایک معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لئے عدالت ہر چیز سے زیاده اہم ہے
انتظار کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود کو اس شکل، صورت، کیفیت اور کردار سے نزدیک کرے جس صورت و کردار اور کیفیت کی توقع اس زمانے میں کی جا رہی ہو جس کا انتظار ہے. یہ انتظار کا لازمہ ہے.
جب یہ طے ہے کہ اس زمانے میں جس کا انتظار ہے، عدل ہو، حق ہو، توحید ہو، اخلاص ہو، الله کی عبادت ہو، تو پھر ہم جو منتظر ہیں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ان چیزوں سے نزدیک کریں:
اپنے آپ کو عدالت سے آشنا کریں،
عدالت کے لئے تیار کریں،
حق کو قبول کرنے کے لئے تیار کریں.
انتظار ایک اس طرح کی حالت کو وجود میں لاتا ہے.
آج انسان کی ذہنیت اس بات کے لئے آماده ہے کہ یہ سمجھے، جانے اور یقین کرے کہ ایک عظیم الشان انسان آئے گا اور انسانیت کو ظلم و ستم سے نجات دے گا؛
وہی چیز جس کے لئے تمام پیغمبروں نے کوشش کی ہے، وہی چیز جس کا وعده پیغمبر اکرمؐ نے قرآن کی اس آیت میں لوگوں سے کیا ہے: «و یضع عنهم اصرهم و الاغلال التی کانت علیهم (سوره اعراف: 157)» یعنی “اور ان پر سے ان کے بوجھ اتارتا ہے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے”.
الله کا دستِ قدرت ایک ایسے انسان کے ذریعے سے جو ایک عرشی انسان، ایک خدائی انسان، ایک انسان جو غیبی، روحانی اور ایسے عالَموں سے متصل ہے جو ہم جیسی چھوٹی نگاه رکھنے والے انسانوں کے لئے سمجھے جانے کے قابل نہیں، اور یہ انسان اس آرزو کو بشریت کے لیے پورا کر سکتا ہے.
لہٰذا دل، شوق اور عشق اس نقطہ کی طرف متوجہ ہیں اور روز بروز متوجہ تر ہو رہے ہیں.
آج انسانیت بہت سے گذشتہ زمانوں سے زیاده ظلم و ستم کا شکار ہے اور علم و معرفت میں بھی انسانیت نے جو ترقی کی ہے وه گذشتہ زمانوں سے زیاده ہے.
ہم امام زمانہ (عج)، انسانوں کے اس حقیقی محبوب کے زمانے سے نزدیک ہو گئے ہیں کیونکہ علم و معرفت نے ترقی کی ہے.
آج ہمارے زمانے میں چمکتے آفتابوں میں سے ایک آفتاب، الله تعالی کے فضل، اس کی مدد اور اس کے اراده سے “بقیة الله فی ارضه” کے عنوان سے، “حجة الله علی عباده” کے عنوان سے، “صاحب الزمان” اور “الله کے ولی کامل” کے عنوان سے زمین پر موجود ہیں.
ان کے وجود کی برکات، ان کے وجود سے بکھرنے والے نور، آج بھی انسان تک پہنچ رہے ہیں. آج بھی انسانیت اپنی تمام تر کمزوریوں، گمراہیوں اور پریشانیوں کے باوجود اس روحانی اور الهی خورشید … کے روشن اور تابناک نور سے استفاده کرتی ہے.
آج امام زمانہؑ کا مقدس وجود روئے زمین پر موجود انسانوں کے لئے برکت، علم، نورانیت، زیبائی اور تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے.
عدالت، پاکیزگی، سچائی، علم و معرفت اور محبت سے سرشار دنیا، امام زمانہؑ کی حکومت کے زمانے کی دنیا ہے کہ (صحیح معنوں میں) انسان کی زندگی بھی اسی زمانے سے شروع ہو گی.
اس دنیا میں انسان کی حقیقی زندگی امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے؛ خدا جانتا ہے کہ انسان اس زمانے میں کن عظمتوں تک پہنچ جائے گا!!
انتظار انسان کے کندھوں پر ذمہ داری ڈالتا ہے.
جب انسان کو یقین ہے کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے؛ جیسا کہ قرآنی آیات میں ہے: «و لقد کتبنا فی الزّبور من بعد الذّکر انّ الارض یرثها عبادی الصّالحون. انّ فی هذا لبلاغا لقوم عابدین (سوره انبیاء: 106-105)» یعنی “اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے. یقینا اس میں عبادت گزار قوم کے لئے ایک پیغام ہے.”
تو پھر جو لوگ الله کی بندگی کرنے والے ہیں وه سمجھتے ہیں کہ:
ضروری ہے خود کو تیار و آماده کریں؛
ضروری ہے منتظر رہیں؛
اور راستے پر آنکھیں لگائے رہیں.
طولِ تاریخ میں انسانوں کے دلوں میں بیٹھا رنج و غم اپنی نگاہوں کو آسمان کے آخری حصے پر لگائے ہوئے ہے تا کہ وه عظیم انسان اور الله تعالی کے چنے ہوئے بندوں میں سے چنا ہوا شخص آئے اور فاسد انسانوں کے پوری تاریخ میں بچھائے ہوئے ظلم و ستم کے جال کو تار تار کر دے.
انتظار کا تقاضا خود کو تیار اور آماده کرنا ہے. ہم یہ جان لیں کہ ایک عظیم واقعہ پیش آئے گا اور ہمیشہ منتظر رہیں.
کبھی بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس واقعے کے پیش آنے میں ابھی تو سالوں یا بہت وقت باقی ہے، اسی طرح کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ واقعہ قریب ہے اور ابھی بہت جلد انجام پانے والا ہے.
ضروری ہے کہ ہمیشہ منتظر رہا جائے، لازم ہے کہ ہمیشہ راستے پر نگاہیں لگائے رکھی جائیں.
#فرج یعنی گره کا کھلنا. مسلمان انتظار کے درس سے … سیکھتا ہے کہ انسانی زندگی میں کوئی ایسی گره نہیں پائی جاتی جو کھولی نہ جا سکتی ہو اور ضروری ہو جائے کہ نا امید انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور کہے کہ بس اب کچھ نہیں کیا جا سکتا؛
نہیں! جب یہ طے ہے کہ انسانی زندگی کے آخر میں ان ساری ظالمانہ اور ستمگرانہ حرکتوں کے مقابلے میں فَرَج کا سورج ظہور کرے گا تو پھر اس جاری زندگی کی ہر بند گلی میں بھی فَرَج کی توقع اور اس کا انتظار ہے.
یہ امید کا درس تمام انسانوں کے لیے ہے؛ یہ حقیقی انتظار کا درس تمام انسانوں کے لیے ہے؛ لہٰذا فَرَج کے انتظار کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے؛
معلوم ہوتا ہے کہ انتظار ایک عمل ہے، بے عملی نہیں. ضروری ہے کہ غلطی نہ کریں!
ایک ملت جو خدا پر ایمان اور توکل رکھتی ہو، مستقبل کے لئے امیدوار ہو اور غیب کے پردوں میں موجود شخصیت سے رابطے میں ہو؛ ایک ایسی ملت جس کے دل میں مستقبل، اچھی زندگی اور الهی مدد اور احسان کی امید کا سورج چمک رہا ہو وه کبھی بھی خوفزده اور تسلیم نہیں ہوتی اور ان باتوں سے میدان چھوڑ کر نہیں جاتی.
یہ امام زمانہؑ کی روحانیت پر ایمان رکھنے کی خصوصیت ہے.
امام زمانہؑ پر ایمان انسان کے دل میں بھی، معاشرے کی حرکت میں بھی، حال اور مستقبل میں بھی ایسی عظیم تاثیر رکھتا ہے. ضروری ہے کہ اس کی قدر دانی کی جائے.
تمام مسلمان “مہدی موعود” کی حقیقت کو رسول اکرمؐ اور اولیاء دین کی طرف سے پہنچنے والی مستند روایات کی بنا پر قبول کرتے ہیں. لیکن یہ حقیقت پوری دنیائے اسلام میں کہیں بھی ہماری عظیم ملت اور شیعوں کی زندگیوں کے ماحول کی طرح نمایاں، درخشاں چہره اور پرحرارت و پرامید روح نہیں رکھتی.
یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم ہماری متواتر روایات کی برکت سے “مہدیؑ موعود” کی شخصیت کو ان کی خصوصیات کے ساتھ پہچانتے ہیں.
ہمارے لوگ الله کے ولی اعظم، زمین پر خلیفة الله اور پیغمبرؐ کی اہل بیتؑ کے باقی ره جانے والے فرد کو ان کے نام اور خصوصیات سے پہچانتے ہیں،
فکری اور جذباتی طور پر ان سے رابطہ قائم کرتے ہیں،
ان سے باتیں کرتے ہیں،
ان سے شکوه کرتے ہیں،
ان سے چاہتے ہیں،
اور عظیم الشان الهی اقدار کی انسانی زندگی پر حاکمیت کے اس زمانے کا #انتظار کرتے ہیں، اور یہ انتظار بہت قیمتی چیز ہے.
اس انتظار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کا موجود ہونا منتظرین کے دلوں سے امید کے پھوٹتے چشمے کو ختم نہیں کر سکتا.
اگر یہ امید کا مرکز ایک انسانوں کے گروه کے درمیان موجود نہ ہو تو اس کے علاوه ان کے پاس کوئی چاره نہیں کہ انسانیت کے مستقبل کے بارے میں بدگمان ہو جائیں.
ہماری ناقابل اور تاریک آنکھیں اس آسمانی چہرے کو نزدیک سے نہیں دیکھتیں لیکن وه سورج کی طرح روشن ہیں.
وه دلوں سے ارتباط رکھتے ہیں اور روح و باطن سے متصل ہیں اور اس انسان کے لئے جو معرفت رکھتا ہو، اس سے بڑھ کر کوئی عطا نہیں ہے کہ وه یہ احساس کرے کہ الله کا ولی، امامِ برحق، بنده صالح، ساری دنیا کے انسانوں میں سے چنا ہوا بنده اور زمین میں خلافتِ الهی کی آیت کا مخاطب انسان زمین میں اس کے ساتھ اور اس کے نزدیک ہے، اسے دیکھتا ہے اور اس سے ارتباط رکھتا ہے.
سارے انسانوں کی خواہش ایسی عظیم ہستی کا موجود ہونا ہے.
ہمارے بہت سے بڑے علماء نے اسی غیبت کے زمانے میں اس عزیز اور عاشقوں اور مشتاقوں کے دلوں کے محبوب کی نزدیک سے زیارت کی ہے.
بہت سوں نے نزدیک سے ان سے بیعت کی ہے.
بہت سوں نے ان سے دلوں کو گرم کر دینے والے بیانات سنے ہیں.
بہت سوں نے ان سے شفقت دیکھی ہے.
اور بہت سے دیگر افراد نے انہیں جانے بغیر ان سے احسان و شفقت اور محبت کو پایا ہے لیکن انہیں نہیں پہچانے.
اسی تھوپی ہوئی جنگ (عالمی طاقتوں کی ایماء پر صدام کی مسلط کرده 8 سالہ جنگ) میں ایسے بہت سے جوان ہیں جنہوں نے حساس مواقعوں پر نورانیت اور روحانیت کا احساس کیا، غیب سے لطف و احسان کو اپنے دلوں کی طرف محسوس اور لمس کیا لیکن اسے پہچان نہیں سکے، سمجھ نہیں سکے.
امام زمانہؑ طاقت اور قدرت کے ساتھ اور اپنے عظیم الشان ایمان اور اپنے پیروکاروں اور محبوں کے ایمان کی توانائی پر بھروسہ کرتے ہوئے کہ جس نے انہیں وه قدرت مہیا کی ہو گی، نکلیں گے اور ستمگروں کے گریبان کو پکڑیں گے اور ظلم و ستم کے ایوانوں کو نابود کر دیں گے.
مہدویت کا نمایاں ترین نعره عدالت ہے. مثلاً دعائے ندبہ میں جب امام زمانہؑ کی صفات کو گننا اور بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو آپؑ کی آپؑ کے آباؤ اجداد اور خاندان مطہر کی طرف نسبت دینے کے بعد پہلا جملہ جو ہم ذکر کرتے ہیں وه یہ ہے کہ:
«این المعدّ لقطع دابر الظلّمه، این المنتظر لاقامه الامت والعوج، این المرتجی لازاله الجور والعدوان» یعنی انسانیت کا دل دھڑکتا ہے تا کہ وه نجات دینے والا آئے اور ظلم و ستم کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے؛ ظلم و ستم کی بنیادوں کو جو انسانیت کی طولِ تاریخ میں پرانے زمانوں سے ہمیشہ موجود رہی ہیں اور آج بھی شدت کے ساتھ موجود ہے کو نابود کرے اور ظالموں کو ان کی اوقات یاد دلائے.
یہ “مہدیؑ موعود(1)” کے منتظرین کی ان کے ظہور سے سب سے پہلی امید ہے.
(1)وه مہدیؑ جن کا وعده دیا گیا ہے.
یا جب زیارت آلِ یاسین میں امام زمانہؑ کی خصوصیات کو بیان کرتے ہیں تو ان نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ «الّذی یملأ الارض عدلا و قسطا کما ملأت ظلما و جورا» یعنی “وه جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وه ظلم و جور سے بھر گئی ہو گی”.
انتظار یہ ہے کہ وه پوری دنیا کو، نہ صرف اس کے ایک حصہ کو، عدالت سے بھر دیں گے اور عدالت کو ہر جگہ نافذ کر دیں گے.
روایات میں بھی جو آپؑ کے بارے میں موجود ہیں یہی مطالب بیان ہوئے ہیں. لہٰذا امام زمانہؑ کے منتظرین کا انتظار، پہلے درجے میں عدل و انصاف کے قائم ہونے کا انتظار ہے.
یہ صحیح ہے کہ تاریخ میں امام مہدیؑ کے ظہور پر اعتقاد صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص نہیں؛ تمام مسلمان، جس میں شیعہ اور سنی سب شامل ہیں اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں؛ بلکہ ایک طرح سے غیر مسلمان بھی اس پر اعتقاد رکھتے ہیں؛
لیکن شیعوں کا امتیاز اس وجہ سے ہے کہ وه اس انسانیت کو نجات بخشنے والی شخصیت کو اس کے نام و نشان اور خصوصیات کے ساتھ پہچانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وه ہمیشہ الله تعالی کے حکم کو دریافت کرنے کے لیے حاضر اور آماده ہیں.
جس وقت بھی خدا نے انہیں حکم دیا وه اس عظیم کام کو شروع کرنے کے تیار ہیں جو طے ہے کہ انسانیت اور تاریخ کو دگرگوں کر دے.
فرَج کا انتظار ایک بہت ہی وسیع و عریض مفہوم ہے.
ایک انتظار آخری فَرَج کا انتظار ہے؛ یعنی یہ کہ اگر آج انسانیت دیکھ رہی ہے کہ دنیا کے طاغوت لوٹ مار اور قتل و غارتگری کر رہے ہیں اور آزادی سے انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی یہ سوچے کہ دنیا کی قسمت میں یہی لکھا ہے، بالکل بھی اس طرح خیال نہ کرے کہ بالآخر اس کا کوئی حل نہیں ہے اور ضروری ہے کہ انہیں حالات کو قبول کر لیا جائے؛
نہیں! جان لے کہ یہ صورتحال ایک گذر جانے والی صورتحال ہے ….. اور وه چیز جو اس دنیا سے متعلق ہے اور اس دنیا کی تقدیر ہے وه عدل کی حکومت کا قائم ہونا ہے؛ اور وه وقت ضرور آئے گا.
آج جب ہم دنیا کی بڑی سیاسی شخصیات سے بین الاقوامی قدرت کے مراکز کے مظالم اور پوری دنیا پر نافذ ظالمانہ سسٹم کے بارے میں بات کرتے ہیں جو آج استکبار کی سرپرستی میں پوری دنیا میں موجود ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وه کہتے ہیں، جی ہاں، آپ جو کہہ رہے ہیں وه صحیح ہے؛ حقیقتاً یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں؛ لیکن کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا!
…واضح ہے کہ مایوس انسان اصلاح کے راستے میں کوئی حرکت انجام نہیں دے سکتے. وه چیز جو انسانوں کو حرکت اور کام پر مجبور کرتی ہے وه امید کا نور اور امید کی طاقت ہے.
“مہدیؑ موعود” پر اعتقاد دلوں کو امید کے نور سے سرشار کر دیتا ہے. ہمارے لئے جو کہ مستقبل میں امام مہدیؑ کے ظہور کے حتمی ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں، یہ مایوسی جو دنیا کی بہت سی بڑی شخصیات کے دامن گیر ہے، معنی نہیں رکھتی.
ہم کہتے ہیں بالکل نہیں! دنیا کے سیاسی نقشے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؛ ظلم اور قدرت کے ظالمانہ مراکز سے ٹکرایا جا سکتا ہے اور مستقبل میں نہ صرف یہ کہ یہ بات ممکن ہے بلکہ یقینی بھی ہے.
جب ایک ملت یہ اعتقاد رکھتی ہوکہ آج کے شیطانی اور ظالمانہ نقشے کو پوری دنیا میں تبدیل کیا جا سکتا ہے تو پھر وه ملت شجاعت حاصل کر لیتی ہے؛ تقدیر نے ظالم و ستمگر افراد کا غلبہ ہمیشہ کے لئے حتمی طور پر نہیں لکھا ہے!!
وه #عدالت جس کے انتظار میں ہم ہیں، #امام_مہدیؑ کی عدالت جو پوری دنیا کی سطح پر ہے، وعظ و نصیحت سے ہاتھ نہیں آئے گی!
یعنی یہ نہیں کہ امام مہدیؑ آئیں اور دنیا کے ظالموں اور ستمگروں کو نصیحت کریں کہ ظلم، اپنے حق سے زیاده کی کوشش، دوسروں پر ظالمانہ غلبہ اور ان سے ناجائز فائده نہ اٹھائیں.
نصیحت کی زبان سے دنیا میں کسی بھی جگہ عدالت “قائم” نہیں ہوتی.
عدالت کے قیام کے لئے:
چاہے عالمی سطح پر، جس طرح کہ وه وارثِ انبیاءؑ اسے انجام دیں گے،
اور چاہے دنیا کے تمام حصوں میں،
ضروری ہے کہ عادل افراد اور صالح اور عدالت کے چاہنے والے انسان قدرت تک پہنچنیں تا کہ وه غنڈه گردی کرنے والوں سے قدرت اور طاقت کی زبان میں بات کر سکیں.
ان لوگوں کے ساتھ نصیحت کی زبان میں بات نہیں کی جا سکتی جو ظالمانہ طاقت کے نشے میں مست ہیں؛ ایسے لوگوں کے ساتھ ضروری ہے کہ طاقت و اقتدار کی زبان میں بات کی جائے.
(مہدویت کے موضوع میں موجود) ایک اور اہم درس یہ ہے کہ مستقبل میں آنے والی “مہدیؑ موعود” کی حکومت ہر جہت سے ایک عوامی حکومت ہے.
عوامی یعنی کیا؟ یعنی وه حکومت لوگوں کے ایمان، ارادے اور ان کے قوت بازو پر استوارہو گی.
امامِ زمانہؑ اکیلے دنیا کو عدل و انصاف سے پُر نہیں کریں گے بلکہ امامِ زمانہؑ تمام مومن افراد کے ذریعے اور ان پر اعتماد کرتے ہوئے الهی عدالت کو پوری دنیا میں قائم کریں گے اور ایک سو فیصد عوامی حکومت تشکیل دیں گے؛
لیکن اس عوامی حکومت میں اور آج کی ان حکومتوں میں جو عوامی ہونے اور جمہوریت کا دعوی کرتی ہیں، زمین اور آسمان کا فرق ہے. وه جو آج دنیا میں عوامی قیادت اور ڈیموکریسی کا نام رکھ دیا گیا ہے یہ دراصل وہی پرانی ڈکٹیٹرشپ ہے جس نے نئے کپڑے زیب تن کر لئے ہیں؛ یعنی گروہوں کی ڈکٹیٹرشپ.
…آج کی دنیا میں موجود ڈیموکریسی کی بنیاد جھوٹے، دلفریب اور آنکھوں اور دلوں پر جادو کر دینے والے پروپیگینڈے پر ہے. …جمہوریت پیسوں کے اقتدار کے پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے.
امام زمانہؑ کی عوامی قیادت یعنی عوامی دینی قیادت، اس طریقے سے بالکل مختلف ہے.
“مہدیؑ موعود” سے پہلے کا زمانہ آرام و آسائش، راحت طلبی اور عافیت کا زمانہ نہیں. روایات میں «والله لتمحصن» و «والله لتغربلن» وارد ہوا ہے، سختی سے امتحان کیے جاؤ گے، دباؤ کا شکار کیے جاؤ گے.
آزمائش کہاں اور کس زمانے میں؟ اس وقت جب جدوجہد کا میدان ہو.
امام زمانہؑ کے ظہور سے پہلے جدوجہد کے میدانوں میں پاک انسان آزمائے جائیں گے. امتحان کی آگ میں داخل ہوں گے اور اس سے سربلند باہر نکلیں گے اور دنیا “مہدیؑ موعود” کے اس مثالی اور آخری دور سے روز بروز نزدیک تر ہوتی چلی جائے گی.
اپنے دلوں میں الله تعالی کے ولی اعظم (عج) کی یاد کو زنده رکھیں.
اس دعا «اَللّهُمَّ اِنّا نَرْغَبُ اِلَیْکَ فى دَوْلَةٍ کَریمَةٍ (دعائے افتتاح)» یعنی “اے خدا ہم تجھ سے اس عظیم حکومت کے نور میں زندگی چاہتے ہیں” کو پورے دل سے اور مکمل طور پر احتیاج کی حالت میں پڑھیں.
“عَزیزٌ عَلَیَّ اَنْ اَرَی الْخَلْقَ وَلا تُری” (دعائے ندبہ)؛
اے امام زمانہؑ! ہمارے لیے بہت سخت ہے کہ اس دنیا میں، اس بے انتہا کائنات میں جو بندگان صالح سے متعلق ہے، الله والے بندوں سے متعلق ہے، اس میں دشمنان خدا کو دیکھیں، دشمنان خدا کے وجود کے آثار کو محسوس کریں لیکن آپؑ کو نہ دیکھیں اور آپؑ کے حاضر ہونے کے فیض کو محسوس نہ کریں!!
آپ برادران اور خواهران عزیز متوجہ ہوں. جب قرآنی آیات اور دعاؤں کو پڑہیں کہ جو ذکر ہوئی ہیں تو اپنے ذہن کو اس معاملے میں کھولیں اور مزید کھولیں.
صرف دعائے ندبہ کا پڑه لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس سے درس لینا اور اسے سمجھنا ضروری ہے.
ہمارے معاشرے کا ایک ایک فرد:
امام زمانہ (عج) سے توسل،
ان کے بارے میں آشنائی،
ان سے رازونیاز،
انہیں سلام کرنا،
اور آپؑ کی طرف توجہ کرنے کو لازماً اپنی ایک ذمہ داری اور فریضہ جانے؛
اور امام زمانہ (عج) کے لیے دعا کریں، اسی طرح جیسے ہمیں روایات میں ملتا ہے اور یہ دعا «اَللّهُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ» ان بہت سی موجود دعاؤں میں سے ایک قسم کی دعا ہے. اس کے علاوه وه زیارات جو کتابوں میں ہیں جو ہم پڑھنے والوں کو فکر، آگاہی اور معرفت عطا کرنے کی جہت کے علاوه، روحی، قلبی، جذباتی اور احساساتی جہت بھی رکھتی ہیں اور ہم اس کے ضرورتمند ہیں.
آج اگر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کونے کونے میں ظلم، ناانصافی، امتیازی سلوک اور زور و زبردستی موجود ہے، یہ وہی چیزیں ہیں کہ امام زمانہ (عج) ان سے مقابلے کے لئے آئیں گے.
اگر ہم امام زمانہؑ کے سپاہی ہیں تو ضروری ہے کہ خود کو اس جنگ کے لئے تیار کریں!
جو شخص اسلامی ملک کو درپیش خطرے کے وقت، اسلامی وطن، (اسلامی) اقدار اور اسلام کے لہرائے گئے پرچم کے دفاع کے لئے تیار ہو، وه یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اگر امام زمانہ (عج) آ جائیں تو ان کے پیچھے پُرخطر میدانوں میں قدم رکھے گا!!
لیکن وه لوگ جو خطروں، انحراف اور دنیا کی رنگینیوں کی وجہ سے ہار جاتے ہیں اور سست پڑ جاتے ہیں، وه لوگ جو اپنی ذاتی خواهشات کی وجہ سے تیار نہیں ہیں کہ وه کام کریں جس سے ان کے منافع کو خطره لاحق ہو جائے، یہ لوگ کس طرح امام زمانہ (عج) کے منتظر شمار ہو سکتے ہیں؟
وه شخص جو کہ عظیم اصلاح کرنے والے کے انتظار میں ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر اصلاح کے لئے آمادگی پیدا کرے اور کچھ ایسا کرے کہ اصلاح کے اجرا کے لئے قیام کر سکے.
انتظار یعنی یہ مستقبل یقینی اور حتمی ہے؛ خاص طور پر ایک زنده اور حاضر موجود کا انتظار؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے. ایسا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ کوئی ہے جو پیدا ہو گا، کوئی ہے جو وجود میں آئے گا؛
نہیں! کوئی ہے کہ جو (موجود) ہے، وه وجود رکھتا ہے، وه حاضر ہے، وه لوگوں کے درمیان ہے.
روایت میں ہے کہ لوگ انہیں (امام مہدیؑ) دیکھتے ہیں، اسی طرح جس طرح وه لوگوں کو دیکھتے ہیں البتہ (لوگ انہیں) پہچانتے نہیں ہیں.
کچھ روایات میں امام مهدیؑ کو حضرت یوسفؑ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ ان کے بھائی انہیں دیکھتے تھے، وه ان کے درمیان تھے، ان کے ساتھ تھے، انہیں کی زمین پر چلتے تھے لیکن (ان کے بھائی) انہیں پہچانتے نہیں تھے. ایک اس طرح کی کھلی حقیقت، واضح اور احساس کو بھڑکانے والی!!