مصنف
حجت الاسلام محمد ابوالقاسم دولابی
موضوع
قرآنی طرز زندگی
میسجز
200+ میسجز

اگر آپ بینرز کے لیے اعلیٰ کوالٹی کے پوسٹرز چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔

موضوع کی تفصیل
رمضان المبارک سن 2015 میں حرم مطہر حضرت بی بی معصومہ قمؑ میں ہر روز قرآن کے ایک سپارے سے 10 اہم نکتے بیان کیے گئے. یہ نکات اور مختصر تفسیر جناب حجت الاسلام آقای محمد ابوالقاسم دولابی نے پیش کی ہے جو حوزه علمیہ قم کی ایک ممتاز علمی، انقلابی اور قرآنی شخصیت ہیں. اس سیریز میں مومنین کی خدمت میں اس کتاب میں بیان کیے گئے گراں قدر مطالب کو خلاصہ وار پیش کیا جائے گا، ان شاء الله
سیریز کے مکمل میسجز

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

ہر سورے کے شروع میں اس جملے کو لانے کا مطلب یہ ہے کہ مومن اپنے تمام کاموں میں خدا پر توکل کرتا ہے؛ کیونکہ مومن ہمیشہ اپنے آپ کو الله کا محتاج سمجھتا ہے اور الله کو ہر ضرورت سے پاک:

انسانو تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اوراللہ صاحب دولت اور قابلِ حمد و ثنا ہے (سوره فاطر: 15)

اسی لئے با ایمان لوگ اپنی پیدائش اور اپنی زندگی کے ہر لمحے میں خود کو الله کا احسان مند سمجھتے ہیں.

اس رابطے پر اعتقاد اور اس لامحدود کمالات کے سرچشمے پر بھروسہ ہے کہ جو سبب بنتا ہے کہ انسان زندگی میں کبھی بھی کمزوری، شکست اور کمی کا احساس نہ کرے.

اور یہ اعتقاد ‘بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ’ کہنے اور اس کے معنی میں توجہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے.

(قرآنی طرز زندگی، ص 21-22)

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 1

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

اس جملے سے الله تعالی ہمیں سکھانا چاہتا ہے کہ ہر حال میں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے، چاہے خوشی کے حال میں ہوں یا مشکلات میں.

امام جعفر صادقؑ رسولِ خدا (ص) کے بارے میں فرماتے ہیں:

آپؐ جب بھی کسی چیز سے خوش ہوتے تو فرماتے تھے: ”الله کا اس نعمت پر شکر” اور جب بھی کوئی ایسی چیز پیش آتی کہ آپؐ پریشان ہوتے تو فرماتے: ”الله ہر حال میں تعریف کے لائق ہے”. (الکافی، ج 2، س 97)

اس لئے مومن ہمیشہ پروردگار کی نعمتوں کا شکرگذار رہتا ہے اور اس خصوصیت کا اظہار ”اس کا اپنی زندگی سے راضی رہنے کی صورت میں نظر آتا ہے”، ”اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشره وه معاشره ہے کہ جس میں سب لوگ الله تعالی سے راضی ہوں”.

(قرآنی طرز زندگی، ص 22)

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 2

الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 118 مرتبہ قرآن میں تکرار ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ الله بہت مہربان اور بخشنے والا ہے.

اس آیت کا اتنا زیاده ذکر ہونا اس بات کو سمجھا رہا ہے کہ: اے ایسے مہربان خدا کے بندو! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم آپس میں مہربان نہ ہو! باپ اپنے بچوں ک ساتھ مہربان نہ ہو! یا کوئی شخص اپنی بیوی، ہمسایوں، دوستوں اور ساتھ میں کام کرنے والوں ک ساتھ مہربان نہ ہو!

اس لئے آپس میں محبت کرنا قرآنی طرزِ زندگی کی ایک اہم نشانی ہے. اس کی اہمیت اس حد تک ہے کہ قرآن اسے رسولِ اکرم (ص) کے ساتھیوں اور پیروکاروں کی صفات میں سے شمار کرتا ہے:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ

”محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں” [سوره فتح: 29]

(قرآنی طرز زندگی، ص 23)

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 3

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

الله تعالی اس آیت کے ذریعے ہمیں اس کی طرف پلٹنے اور قیامت کی یاد دلاتا ہے اور سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ آخرت کا خیال رکھنا چاہئے اور آخرت کے سفر کے لئے پلاننگ کرنی چاہئے.

ایسے معاشرے جہاں آخرت کا کوئی عقیده نہیں، وہاں سارے لوگ صرف اور صرف دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور آخرت کو پوری طرح سے بھول چکے ہیں، لیکن با ایمان معاشره دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتا ہے اور اسے آبادکرنے کے لئے یہ لوگ اپنے کام انجام دیتے ہیں.

امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت کے مطابق انسان ایسی زندگی گزار رہا ہے جو چند روزه ہے، یہ کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے اور موت اچانک آ جائے گی. جو بھی نیکی کریگا وه آخرت میں حسرت کرے گا کہ کیوں زیاده نیکی نہیں کی، اور جو بھی گناه کرے گا آخرت میں پچھتائے گا کہ کیوں اس طرح کے برے کام انجام دیئے! سب وہی پائیں گے جو انہوں نے اس دنیا میں انجام دیا ہے. [الکافی، ج 2، ص 458]

(قرآنی طرز زندگی، ص 23-24)

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 4

إِيَّاكَ نَعْبُدُ

الله تعالی اس جملے کے ذریعے ہمیں سکھا رہا ہے کہ اہلِ عبادت بنیں اور اس عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں.

جیسا کہ مومنین اہلِ عبادت ہوتے ہیں اور عبادت کی نشانیاں جیسے کہ نماز، روزه، معصومینؑ کی زیارت، قرآنی جلسوں میں شرکت کرنا، مجالس اور دروس میں شرکت، عزادری میں شرکت کرنا وغیره با ایمان معاشرے کی خصوصیات ہیں. ایسے معاشروں میں مساجد مرکز ہوتی ہیں؛ جبکہ وه معاشرے جو دین اور اس کی تعلیمات سے نا آشنا ہیں ان کی توجہ ان مراکز کی طرف نہیں ہوتی.

(قرآنی طرز زندگی، ص 24)

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 5

إِيَّاكَ نَعْبُدُ

اس جملے میں جمع کا صیغه استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ: خدایا! ”ہم” صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں، حتی کہ جب ہم فرادا نماز پڑهتے ہیں اس وقت بھی یہی پڑهتے ہیں.

یہ اجتماعی شناخت اور اتحاد و اتفاق، ایمانی معاشرے کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے. یہ جو قرآن خوانی کی محفلیں برپا ہوتی ہیں، شبِ قدر میں جو مومنین و مومنات بڑی تعداد میں اعمال انجام دیتے ہیں، قرآن سر پر رکھا جاتا ہے، الله سے خلوص کے ساتھ دعا کی جاتی ہے، یہ سارے اعمال اسلام کی نظر میں اجتماعی عبادات کی مثالیں ہیں جنہیں لوگ مل کر انجام دیتے ہیں.

ممکن ہے کہ انسان ان اعمال کو اکیلے انجام دے لیکن ان عبادات کو اجتماعی طور پر انجام دینے میں بہت زیاده فوائد و آثار ہیں جو اکیلے عبادت کرنے سے بالکل بھی حاصل نہیں ہوتے، یا بہت کم حاصل ہوتے ہیں.

(قرآنی طرز زندگی، ص 24-25)

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 6

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ

خدایا! ہم جو تیری سکھائی ہوئی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زندگی اور دنیا والوں کی زندگی مختلف ہے، تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں صحیح زندگی گزارنا سکھا.

مومن ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ یہ جانے کہ کس طرح اس کی زندگی قرآن کے مطابق ہو تا کہ اسے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل ہو. اس لئے مومن ہر طرح کی طرزِ زندگی کے زیرِ اثر نہیں جاتا اور پروپیگینڈه اور زور زبردستی سے غیروں کی ثقافت کو قبول نہیں کرتا.

(قرآنی طرز زندگی، ص 25)

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 7

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ خدایا! ہمیں ان کے راستے کی هدایت کر جن پر تو نے نعمت نازل کی ہے کیونکہ مومن اچھی شخصیات کی تلاش میں ہوتا ہے، جن کی وه پیروی کرے. یہ کون لوگ ہیں جن پر الله نے اپنی نعمت نازل کی ہے؟ اس سوال کا جواب سوره نساء کی انسٹھویں آیت میں ملتا ہے جس میں ان چار گروہوں کو مومنین کے لئے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن پر الله نے نعمتیں نازل کی ہیں. اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں. (سوره نساء: 69) 1) پیغمبران 2) پیغمبروں کے سچے پیروکار، اہل بیت علیهم السلام 3) حق کی راه میں شہید ہونے والے کہ جو اپنی جان کو الله کے دین….. Read More »

غیر المغضوب علیهم ولا الضّالِّین یعنی یہ اس راستے سے انحراف کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے دعا ہے جو سیدھا راستہ پچھلی آیات میں خدا سے طلب کیا گیا تھا۔ مومن جانتا ہے کہ خدا کے راستے یا اسی سیدھے راستے کے سوا جو کچھ بھی ارد گرد طرز زندگی کے عنوان کے تحت پیش کیا جاتا ہے سب ہی منحرف راستے ہیں، جن پر خدا کے قہر کا شکار ہونے والوں اور گمراہ لوگوں نے قدم رکھے ہیں۔

امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوئی روایت میں ملتا ہے کہ الله تعالی نے اپنے ایک پیغمبرؑ پر وحی نازل کی کہ ایمان والوں سے کہہ دو: میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنو اور میرے دشمنوں کا کھانا نہ کھاؤ اور میرے دشمنوں کے راستے پر مت جاؤ کیونکہ اس طرح تم بھی میرے دشمن بن جاؤ گے (من لا یحضره الفقیہ، ج 1، ص 252). لہذا منحرف لوگوں کے طرز زندگی سے دوری نویں قرآنی خصوصیت بنتی ہے.

کبھی کبھار حق کے راستے سے نکل جانا اور کفار کے ساتھ ہمراه ہونے کے نتیجے میں باطل راستے کا راہی ہونا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انجام پاتا ہے. اور چونکہ وه ایمان والوں کے مکمل انحراف سے کم پر راضی نہیں ہوتے اس لیے اگر مومن اسلامی قوانین اور اصولوں سے ہٹ کر کفار کے ساتھ کوئی معاہده کرے تو اسے چاہیے کہ وه اس بات پر یقین کر لے کہ کافر کسی بھی صورت ان معاہدوں اور تعاون کے وعدوں اور اسی طرح کی دیگر چیزوں کے ذریعے راضی نہیں ہوتے، بلکہ ان کے راضی ہونے کی شرط چوں چرا کیے بغیر ان کی پیروی کرنا ہے. لہذا مومن اپنی زندگی میں ہر قسم کے انحراف سے سختی سے دوری کرتا ہے.

#سپاره_نمبر_1_کے_منتخب_پیغامات – 9

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (سوره بقرة: 02)

اس با عظمت کتاب کی حقانیت میں کوئی شک و شبہہ موجود نہیں؛ یہ پوری کی پوری کتاب پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے. یعنی یہ کتاب ہدایت کا سرچشمہ ہے اور ہمیں سیدھے راستے پر جینا سکھاتی ہے.

قرآن مجید انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین اور صحیح زندگی گزرانے سے متعلق دیگر تعلیمات کے بیان کرنے کے ذریعے یہ کوشش کرتا ہے کہ #حیات_طیبہ کو پسند کرنے والے انسان کو منزل مقصود کی طرف رہنمائی کرے. اسی لیے قرآنی تعلیمات کی طرف توجہ کرنا اسلامی اور قرآنی معاشرے کو مادّی اور غیر قرآنی معاشروں سے مختلف بنا دیتا ہے.

امام خمینیؒ کے مطابق:

قرآن مجید سے، اس الہی صحیفے اور ہدایت کی کتاب سے انس حاصل کرنے سے غفلت نہ برتیں کیونکہ پوری طول تاریخ میں مسلمانوں کے پاس جو کچھ بھی رہا ہے اور آئنده بھی ہاتھ آئے گا سب کا سب اس مقدس کتاب کی برکتوں سے سرشار ہے.

#سپاره_1_کے_منتخب_پیغامات – 10

الله تعالی نے دوسرے پارے کی ابتدائی آیات میں قبلہ کا ذکر فرمایا ہے اور سوره بقره کی آیت نمبر 149 میں فرماتا ہے کہ:

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ یعنی “پیغمبر آپ جہاں سے باہر نکلیں اپنا رخ مسجد الحرام کی سمت ہی رکھیں”.

قرآنی زندگی کے اصولوں میں سے ایک اصول قبلے کو خاص اہمیت دینا ہے. مسجد الحرام اور قبلہ ہماری دینی تہذیب میں انتہائی خاص اہمیت کا حامل ہے.

رسول خداؐ کی سیرت میں ملتا ہے کہ كَانَ أَكْثَرُ مَا يَجْلِسُ مُسْتَقْبِلَ اَلْقِبْلَةِ (بحارالانوار، ج 16، ص 228) یعنی آپؐ زیاده تر قبلے کی طرف رخ کر کے بیٹھتے تھے.

نماز کے واجبات میں سے ایک قبلہ رخ ہونا بھی ہے حتی اگر نمازی بیٹھنے کی حالت میں یا لیٹے ہوئے نماز پڑھے تب بھی ضروری ہے کہ وه قبلہ رخ ہو.

کعبہ مسلمانوں کے اتحاد کا مرکز ہے اور وه دنیا میں چاہے کسی بھی جگہ پر ہوں، عبادت کے لیے کعبہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اسلام کا قبلہ ہے.

کعبہ بڑی الہی تحریکوں کا مرکز رہا ہے. رسول اکرمؐ نے حضرت ابراہیمؑ کی طرح اپنی تحریک کا آغاز خانہ کعبہ سے ہی کیا اور امام زمانہ (عج) بھی اپنی تحریک کا آغاز خانہ کعبہ سے ہی کریں گے.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 1

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ (سوره بقره: 154) یعنی “اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ مگر تمہیں (ان کی زندگی کی حقیقت کا) شعور (سمجھ) نہیں ہے”.

اہلبیتؑ کی نظر میں شہداء کی یاد کو زنده رکھنا ہمیشہ ایک قابل توجہ کام رہا ہے.

امام جعفر صادقؑ بی بی فاطمہ زہرا (س) کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ إِنَ‏ فَاطِمَةَ ع‏ كَانَتْ تَأْتِي قُبُورَ اَلشُّهَدَاءِ فِي كُلِّ غَدَاةِ سَبْتٍ فَتَأْتِي‏ قَبْرَ حَمْزَةَ وَ تَتَرَحَّمُ عَلَيْهِ وَ تَسْتَغْفِرُ لَهُ‏ (تہذیب الاحکام، ج 1، ص 465) یعنی “آپ (س) ہر ہفتے کی صبح احد کے شہداء کی قبروں پر جایا کرتی تھیں؛ حضرت حمزهؑ کی قبر پر حاضر ہوتی تھیں اور ان کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعا فرماتی تھیں”.

امام جعفر صادقؑ سے منقول ایک اور روایت میں ہے کہ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ ص كَانَتْ سُبْحَتُهَا مِنْ خُيُوطِ صُوفٍ مُفَتَّلٍ مَعْقُودٍ عَلَيْهِ عَدَدَ التَّكْبِيرَاتِ وَ كَانَتْ ع تُدِيرُهَا بِيَدِهَا تُكَبِّرُ وَ تُسَبِّحُ حَتّی قُتِلَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْتَعْمَلَتْ تُرْبَتَهُ وَ عَمِلَتِ التَّسَابِيحَ فَاسْتَعْمَلَهَا النَّاسُ. فَلَمَّا قُتِلَ الحُسَیْنُ صَلَوَاتُ الله علیه و جَدَّدَ عَلی قاتِلِهِ العَذابَ عُدِلَ بِالأَمْرِ إلیهِ فَاسْتَعْمَلُوا تُرْبَتَهُ، لِما فیها مِنَ الفَضلِوَ المَزِیَّةِ (المزار الکبیر، ص 366) یعنی “رسول اکرمؐ کی دختر بی بی فاطمہ (س) کی تسبیح اون‏ سے بنی ہوئی تھی جس میں تکبیرات کی تعداد کے برابر گرہیں لگی ہوئی تھیں اور آپ (س) اسے اپنے ہاتھوں سے پڑھتی تھیں اور تکبیر اور تسبیح کہتی تھیں، یہاں تک کہ حمزه ابن عبدالمطلب شہید ہوئے اور آپ (س) نے ان کی قبر کی خاک کو اٹھایا اور اس سے کچھ دیگر تسبیحیں بنائیں اور پھر لوگ اس سے استفاده کرتے تھے لیکن امام حسین (ان پر الله کے درود اور ان کے قاتلوں پر مسلسل عذاب ہو) کے شہید ہونے کے بعد ان کی قبر کی مٹی اس کا نعم البدل قرار پائی اور لوگوں نے ان کی قبر کی مٹی سے تسبیح بنائی کیونکہ امام حسینؑ کی تربت کو فضیلت اور امتیاز حاصل ہے”.

لہذا شہداء کی یاد کو ہر ممکن طریقے سے زنده رکھنا ان اہم نکات میں سے ہے جنہیں قرآنی زندگی کے حوالے سے لازمی طور پر ہماری توجہ کا مرکز قرار پانا چاہیے.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 2

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ (سوره بقره: 165) یعنی “جو صاحب ایمان ہیں وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت کرتے ہیں”.

اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ جو قرآنی زندگی گزارنا چاہتا ہے اس کی تمام محبتوں کا مرکز و محور خداوندِ عالم کی ذات ہے اور ضروری ہے کہ اس کی تمام محبتیں اور پسندیدگیاں الله تعالی پر ہی ختم ہوں.

امیرالمؤمنین علیؑ ابن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ: مَن أحَبَّنا كانَ مَعَنا يَومَ القِيامَةِ ، ولَو أنَّ رَجُلاً أحَبَّ حَجَرًا لَحَشَرَهُ اللّه ُ مَعَهُ (الامالی، ص 209) یعنی “جو بھی ہمیں دوست رکھے گا وه روز قیامت ہمارے ساتھ ہو گا اور حتی اگر کوئی کسی پتھر سے بھی محبت کرے تو خدا اسے اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا”.

محبت اور پسندیدگی میں ایسے اثر کا موجود ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ مومنین خدا کے علاوه کسی کو محبوب نہ بنائیں اور اسلامی معاشرے کی محبت اور پسندیدگی کا رخ الله تعالی کی طرف ہو.

اس لحاظ سے غیر ایمانی معاشرے کا ایمانی معاشرے کے ساتھ فرق یہ ہے کہ غیر ایمانی معاشرے میں سینما کے فنکار اور کھیلوں کے کھلاڑی اس مجموعے اور تمدن کے ستارے ہوتے ہیں اور لوگوں کے درمیان سب سے زیاده محبوبیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن دینی معاشرے میں جہاں پسندیدگی کا مرکز و محور خداوندِ عالم کی ذات ہے، علماء اور دینی قائدین لوگوں کی محبت کا مرکز قرار پاتے ہیں کیونکہ وه لوگوں کو خدا کی یاد دلاتے ہیں اور لوگوں کو الہی تعلیمات سکھاتے ہیں.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 3

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (سوره بقره: 180) یعنی “تمہارے اوپر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو اگر کوئی مال چھوڑا ہے تو اپنے ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے وصیت کر دے یہ صاحبانِ تقویٰ پر ایک طرح کا حق ہے”.

لہذا شریعتِ اسلامی میں ہر انسان اپنے سارے مال و دولت کے تیسرے حصے کے بارے میں یہ بتا سکتا ہے کہ وه اس کی موت کے بعد کس طرح استعمال کیے جائیں یعنی انسان وصیت کرے کہ یہ تیسرا حصہ کیسے اور کس معاملے میں خرچ ہو.

پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: ما يَنبَغي لامرئٍ مُسلمٍ أن يَبِيتَ لَيلَةً إلاّ و وَصيَّتُهُ تَحتَ رأسِهِ (المقنعة، ص 666) یعنی “ایک مسلمان شخص کے لیے یہ بات سزاوار نہیں ہے کہ وه سوئے مگر یہ کہ اس کے سر کے نیچے اس کی وصیت ہو”.

یہ عظیم بیان اس بات کی طرف اشاره ہے کہ مومن ہمیشہ مسافرت اور اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے آماده رہے.

آپؐ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ: مَن ماتَ على وَصيَّةٍ حَسَنَةٍ ماتَ شَهِیدا (الدعوات، ص 231) یعنی “اگر کوئی مناسب وصیت کے ساتھ اس دنیا سے جائے تو وه شہید ہے”.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 4

دینی معاشره ایک ایسا معاشره ہے جہاں رشوت خوری کی کوئی گنجائش نہیں. وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (سوره بقره: 188) یعنی “اور خبردار ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھانااور نہ حکام کے حوالے کر دینا کہ رشوت دے کر حرام طریقے سے لوگوں کے اموال کو کھا جاﺅ، جب کہ تم جانتے ہو کہ یہ تمہارا مال نہیں ہے”

امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ لَعَنَ اللَّهُ الرَّاشِيَ وَ الْمُرْتَشِيَ وَ الْمَاشِيَ بَيْنَهُمَا وَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَ الرِّشْوَةَ فَإِنَّهَا مَحْضُ الْكُفْرِ وَ لَا يَشَمُّ صَاحِبُ الرِّشْوَةِ رِيحَ الْجَنَّةِ یعنی “خدا کی لعنت ہو رشوت دینے والے پر، رشوت لینے والے پر اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پر”.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 6

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (سوره بقرة: 183) یعنی “صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ”

اس آیت سے یہ پتا چلتا ہے کہ روزے رکھنے کا مقصد تقوی کے مقام تک پہنچنا ہے. مومن اپنی ہوا و ہوس سے کیے جانے والے مقابلے اور جدوجہد کی برکت سے اور بھوک و پیاس کے مقابلے میں صبر کرنے کی وجہ سے تقوی کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.

رسول خداؐ نے فرمایا کہ: الصّائِمُ فی عِبادَةٍ وَ اِنْ کانَ عَلی فِراشِهِ (الکافی، ج 4، ص 63) یعنی “روزے دار عبادت کی حالت میں ہے اگرچہ وه اپنے بستر میں سویا ہوا ہو”.

ایک اور روایت میں امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ: مَنْ صامَ لِلّهِ عَزَّوَجَلَّ يَوْما فى شِدَّةِ الْحَرِّ فَـأَصـابَهُ ظَمَـأٌ وَكَّلَ اللّه ُ بِهِ أَلْفَ مَلَـكٍ يَمْسَحُونَ وَجْهَهُ وَ يُبَشِّرُونَهُ حَتّى اِذا أَفْطَرَ قَالَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ مَا أطْیَبَ رِیحَکَ وَ رَوْحَکَ مَلَائِکَتِی اشْهَدُوا أنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَه (الکافی، ج 4، ص 63) یعنی “وه شخص جو شدید گرمی میں خدا کے لیے روزه رکھے پھر جب اس پر پیاس کا غلبہ طاری ہو تو الله تعالی ایک ہزار فرشتوں کو اس پر تعینات کرتا ہے جو محبت سے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور اسے خوشخبری سناتے ہیں. جیسے ہی وه شخص افطار کرتا ہے تو خداوند عالم فرماتا ہے کہ: تیری خوشبو کتنی اچھی ہے! اور تیری روح! اے میرے فرشتوں! گواه رہنا کہ میں نے اسے بخش دیا ہے”.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 5

وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ (سوره بقره: 233) یعنی “اور مائیں اپنی اولاد کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی جو رضاعت کو پورا کرنا چاہے گا”.

اس بات کی اہمیت اتنی زیاده ہے کہ اس معاملے پر قرآن میں اتنی زیاده تاکید کی گئی ہے. امیرالمؤمنینؑ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ما مِن لَبَنٍ يَرضَعُ بهِ الصَّبِيُّ أعظَمُ بَرَكَةً عَلَيهِ مِن لَبَنِ اُمِّهِ (الکافی، ج 6، ص 40) یعنی “کوئی بھی دودھ جسے بچے کو غذا کے طور پر پلایا جاتا ہے، وه ماں کے دودھ سے زیاده بابرکت نہیں”.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 8

وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ … وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ (سوره بقره: 221) یعنی “خبردار مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرنا جب تک ایمان نہ لے آئیں … چاہے وہ تمہیں کتنی ہی بھلی معلوم ہوں”.

اس آیت کا واضح پیغام یہ ہے کہ بے ایمان عورتوں سے صرف ان کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی نہ کرو.

امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ: إِذَا تَزَوَّجَ اَلرَّجُلُ اَلْمَرْأَةَ لِجَمَالِهَا أَوْ مَالِهَا وُكِلَ إِلَى ذَلِكَ وَ إِذَا تَزَوَّجَهَا لِدِينِهَا رَزَقَهُ اَللَّهُ اَلْجَمَالَ وَ اَلْمَالَ (الکافی، ج 5، ص 333) یعنی “اگر کوئی شخص کسی عورت سے صرف اس کی خوبصورتی اور دولت کی وجہ سے شادی کرے تو الله تعالی اسے اس عورت کے مال اور خوبصورتی کے حوالے کر دیتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص کسی عورت سے اس کے ایمان کی وجہ سے ازدواج کرے تو خدا اسے خوبصورتی اور مال دونوں عطا کر دے گا”.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 7/1

اولاد زحمت نہیں ہے…

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ (سوره بقره: 223) یعنی “تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں لہٰذا اپنی کھیتی میں جہاں چاہو داخل ہو جاؤ اور اپنے واسطے پیشگی اعمال خدا کی بارگاہ میں بھیج دو”.

البتہ یہ کام ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے، عفت و پاکدامنی کی حفاظت کے ساتھ، ازدواجی ملاپ اور پاک، شائستہ و صالح اولاد کے ذریعے انجام پائے.

اس آیت کے مطابق انسان کی اولاد اس کے لیے باقیات الصالحات (باقی ره جانے والی نیکیاں) میں سے ثابت ہو سکتی ہے. اس قرآنی نگاه کے بعد پھر والدین اولاد کو اپنے کاندھوں پر ایک اضافی بوجھ تصوّر نہ کریں.

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: سِتَّةٌ تَلْحَقُ اَلْمُؤْمِنَ بَعْدَ وَفَاتِهِ وَلَدٌ يَسْتَغْفِرُ لَهُ وَ مُصْحَفٌ يُخَلِّفُهُ وَ غَرْسٌ يَغْرِسُهُ وَ قَلِيبٌ يَحْفِرُهُ وَ صَدَقَةٌ يُجْرِيهَا وَ سُنَّةٌ يُؤْخَذُ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ (الکافی، ج 7، ص 57) یعنی “مومن اپنی موت کے بعد چھ چیزوں سے بہره مند ہوتا ہے: ایسی نیک اولاد جو اس کے لیے مغفرت طلب کرے، اپنے پیچھے چھوڑا گیا قرآن، لگایا گیا درخت، کھودا گیا کنواں (اور پانی کی نہر جسے فی سبیل الله جاری اور وقف کرے)، کوئی نیک کام جو اس نے شروع کیا ہو اور دوسرے اس سے فائده اٹھائیں، پسندیده طریقہ جو اس نے چھوڑا اور اس کے بعد اس پر عمل ہوا ہو”.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 7/2

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ (سوره بقره: 238) یعنی “اپنی تمام نمازوں اور بالخصوص نماز وسطٰی کی محافظت اور پابندی کرو”.

نمازوں کو خاص اہمیت دینا، خاص طور پر ظہر کی نماز کو جو ظہر کے گرمی کے وقت اور عموماً روزمره کے کاموں کے عروج کے وقت پڑھنی ہوتی ہے، قرآنی زندگی کی ایک اہم علامت ہے اور اہلِ ایمان اس میں کامیاب ہیں.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 9

قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (سوره بقرة: 249) یعنی “اور ایک جماعت نے جسے خدا سے ملاقات کرنے کا خیال تھا کہا کہ اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”.

امیرالمؤمنین مولا علیؑ نے ارشاد فرمایا: أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِهِ (نہج البلاغہ، خطبہ 201) یعنی “ایہا الناس! دیکھو ہدایت کے راستہ پر چلنے والوں کی قلت کی بنا پر چلنے سے مت گھبراؤ”.

امام خمینیؒ فرماتے ہیں: “اگر ایک قیام خدا کے لیے کیا گیا ہو تو پھر الله تعالی مدد کرتا ہے. تعداد کم ہونے سے نہ ڈریں. لیکن الحمدالله آپ کی تعداد زیاده ہے. اسلام کے ابتدائی دور میں ایک تیس ہزار افراد پر مشتمل تعداد نے اس زمانے کی دو بڑی طاقتوں سے (ٹکر لی) جو ہر طرح کے اسلحے سے لیس تھیں اور ان میں سے صرف ایک طاقت سات یا آٹھ لاکھ فوجی میدان میں لائی جو سب اسلحہ سے لیس تھے لیکن مسلمانوں نے ان پر تیس ہزار افراد کے ذریعے غلبہ حاصل کیا”.

#سپاره_2_کے_منتخب_پیغامات – 10

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (سوره بقره: 258) یعنی “اللہ صاحبانِ ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہی لوگ جہّنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں”.

اس آیت کے مطابق کافر طاغوت کی ولایت کے زیر سایہ ہیں اور مومنین الله کی ولایت اور اس کے اولیاء کی ولایت کے زیر سایہ.

البتہ طاغوت کسے کہا جاتا ہے؟ علامہ طباطبائیؒ اس سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: “طاغوت کے لفظ سے مراد سرکشی اور حد سے تجاوز کرنا ہے؛ … یہ لفظ ایسی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو سرکشی کا وسیلہ ہوں مثلاً الله کے علاوه بنائے گئے معبود جیسے بت، شیطان، جن، بنی آدمؑ میں موجود گمراہی کے پیشوا اور ہر ایسی پیروی کی جانے والی مخلوق جس کی اطاعت پر خداوند عالم راضی نہیں”.

لہذا “طاغوت” ایک عمومی معنی رکھنے والا لفظ ہے جس کے مختلف عملی نمونے موجود ہیں. ہر وه چیز جو انسان کو خدا کی بندگی سے خارج کرے اور اسے پروردگار کے سامنے سرکشی اور گمراہی کی طرف بلائے وه طغیان کا ایک نمونہ ہے.

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 1/2

طغیان کا ایک نمونہ ایسے حکمران بھی ہیں جو حکمِ خدا اور خدا کے حکم کو بیان کرنے والوں کو چھوڑ کر ان سے متضاد احکام جاری کرتے ہیں.

اس آیت شریفہ کے مطابق اگر ہم زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے قرآن اور اہلبیتؑ کی طرف نظریں جما لیں تو ہم ولایتِ خدا کے راستے پر ہونگے لیکن اگر ہم نے اپنی آنکھیں کافروں کے نسخوں کی طرف جما لیں تو ہم ولایتِ طاغوت کے راستے میں قرار پا جائیں گے.

اس لحاظ سے ایک مومن انسان اپنی زندگی کے تمام معاملات کو مثلاً کام کاج، ازدواج، دوستی کرنا، آس پاس کے لوگوں کے ساتھ برتاؤ وغیره کو قرآن و اہلبیتؑ کی تعلیمات کے مطابق ہی انجام دیتا ہے.

غیبت کے زمانے میں جب لوگوں کا امام معصومؑ سے براه راست رابطہ کرنا ممکن نہیں ہے تو ان تعلیمات تک پہنچنے کا راستہ علماء دین کی کہی اور لکھی گئی باتیں ہیں جو انہیں تعلیمات کو بیان کرتی ہیں. ضروری ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ہمارا علماء کی طرف رجوع کرنا اہلبیتؑ کے حکم کے مطابق ہی ہے.

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 2/2

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (سوره بقره: 269) یعنی “وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے گویا خیرِ کثیر عطا کر دیا گیا اور اس بات کو صاحبانِ عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے”.

اور چونکہ مومن اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے خیر حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ آیت “الہی حکمت” کو خیر کثیر کے عنوان سے پہچنوا رہی ہے تو پھر ایمانی زندگی کی ایک اور نشانی حکمت کی تلاش میں رہنا ہے.

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: الحکمة ضالة المؤمن فحیثما وجد احدکم ضالته فلیاخذها (الکافی، ج 8، ص 167) یعنی “حکمت مومن کی گمشده چیز ہے لہذا وه اپنی گمشده چیز کو جہاں بھی پائے اسے لے لے”.

امیرالمؤمنین مولا علیؑ نے فرمایا: إِنَّ هَذِہِ الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الْأَبْدَانُ، فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ (نہج البلاغہ، کلمات قصار 197) یعنی “یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن. لہذا ان کے لیے لطیف ترین حکمتیں فراہم کرو”.

یعنی آپ کی روح کی غذا دلچسپ اور سبق آموز حکمتیں ہیں. حکمت سے مراد ایسی بات ہے جس میں کوئی خدشہ وارد نہ کر سکے، اسی طرح قرآن اور معصومین علیہم السلام کے قیمتی ترین بیانات، اور بڑے علماء دین کی باتیں. یہی حکمت کی اہمیت اور اس کی تاثیر ہے جس کی وجہ سے مومن کو چاہیے کہ وه ہمیشہ اسے حاصل کرنے کی راہوں کی تلاش میں رہے.

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 2

اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ قرآنی طرز زندگی میں “سود” کی کوئی گنجائش ہی نہیں. سوره بقره کی کئی آیات اسی موضوع سے مخصوص ہیں مثلاً آیت نمبر 278 اور 279 جن میں الله تعالی انتہائی سخت انداز میں فرماتا ہے کہ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ یعنی “ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبانِ ایمان ہو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خد ا و رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کرلو تو اصل مال تمہارا ہی ہے. نہ تم ظلم کروگے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا”.

سود کی پلیدگی اور اسے ایمانی زندگی سے نکال پھینکنے کی ضرورت پر روایات میں بھی بہت زور دیا گیا ہے. اس بارے میں امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ اَخْبَثُ الْمَكاسِبِ كَسْبُ الرِّبا یعنی “آلوده ترین آمدنی وه آمدنی ہے جو سود کے ذریعے حاصل ہو”. اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سود کے ذریعے حاصل ہونے والا پیسہ چوری اور رشوت کے مال سے بھی بدتر ہے.

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 3

قرآن مجید سوره آل عمران کی آیت نمبر 13 میں جنگ بدر کے واقعے کو بیان کرتا ہے. ایک ایسی جنگ جس میں 313 مسلمانوں نے اسلام کو بچانے کے لیے 1000 سے زائد کفار کے سامنے صف آرائی کی.

تاریخ میں نقل واقعے کے مطابق مسلمانوں کے پاس فوجی ساز و سامان میں صرف 70 اونٹ، 2 گھوڑے، 6 زرہیں اور 7 تلواریں تھیں (حیوة القلوب، ج 4، ص 883)؛ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپاهِ اسلام کی اکثریت خالی ہاتھوں ایک ایسے لشکر کے سامنے جنگ لڑنے آئی تھی جو تعداد اور فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے ان سے بہت زیاده مضبوط تھا.

اس کے باوجود الله تعالی سوره آل عمران کی آیت نمبر 13 میں انہیں ان کی کامیابی کی خبر سناتا ہے اور فرماتا ہے کہ: قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ ‎یعنی “تمہارے واسطے ان دونوں گروہوں کے حالات میں ایک نشانی موجود ہے جو میدان جنگ میں آمنے سامنے آئے کہ ایک گروہ راهِ خدا میں جہاد کررہا تھا اور دوسرا کافر تھا جو ان مومنین کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہا تھا اور اللہ اپنی نصرت کے ذریعہ جس کی چاہتا ہے تائید کرتا ہے اور اس میں صاحبانِ نظر کے واسطے سامانِ عبرت و نصیحت بھی ہے”.

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 5

ضرورت مند مقروض کو مہلت دینا اس سورے میں قرآنی طرز زندگی گزارنے کے لیے دیے گئے دروس میں سے ایک اور درس ہے. قرآن کریم سوره بقرة کی آیت نمبر 280 میں فرماتا ہے کہ: وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ یعنی “اور اگر تمہارا مقروض تنگ دست ہے تو اسے وسعت حال تک مہلت دی جائے گی”.

یعنی اگر آپ کا مقروض شخص تنگ دست ہے اور اس کے حالات صحیح نہیں اور وه آپ کا قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اسے اس وقت تک مہلت دیں کہ وه آپ کے پیسے ادا کر سکے.

امام جعفر صادقؑ نے رسول خداؐ سے ایک واقعہ نقل فرمایا کہ: “ایک دن رسول خداؐ منبر پر تشریف لے گئے اور حمد و ثناء الہی اور انبیاءؑ پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا: اے لوگوں! جو بات میں کہہ رہا ہوں اسے غیرحاضر لوگوں تک بھی پہنچاؤ. آگاه ہو جاؤ کہ جو شخص بھی اپنے تنگ دست مقروض کو مہلت دے تو الله تعالی مہلت دیے گئے ہر دن کے بدلے میں اتنے ہی پیسوں کے برابر صدقے کے ثواب کو اس کے نامہ اعمال میں لکھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے اس کا مال واپس مل جائے” (الکافی، ج 4، ص 35).

ایک اور روایت میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ: “ہر وه شخص جو اس دن امان کا طلبگار ہے جس دن کوئی بھی سایہ سوائے خداوند عالم کے فراہم کرده سائے کے علاوه موجود نہ ہو گا، آپؑ نے اس جملے کو 3 مرتبہ تکرار کیا، اور لوگ ان کی ہیبت کی وجہ سے پوچھنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے؛ پھر فرمایا: اسے چاہیے اپنے تنگ دست مقروض کو مہلت دے یا اگر ممکن ہو تو اس کے قرض میں کمی کر دے (یعنی قرض کی کچھ مقدار معاف کر دے تا کہ اسے اپنا قرض ادا کرنے میں مدد ہو جائے)” (الکافی، ج 4، ص 35).

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 4

ہر انسان کی طرح مومن بھی عزت کو پسند کرتا ہے اور اس کی تلاش میں ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ وه جانتا ہے حقیقی اور پائدار عزت ایک ایسی نعمت ہے جسے الله تعالی کے علاوه کوئی بھی عطا نہیں کر سکتا.

قرآن مجید سوره آل عمران کی آیت نمبر 26 میں فرماتا ہے کہ قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یعنی “پیغمبر آپ کہئے کہ خدایا تو صاحبِ اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے. جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے. سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے”.

اسی لیے مومن اس بات پر معتقد ہے کہ عزت اجنبیوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ان کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی. عزت صرف الله کے لطف و کرم اور اس کی بندگی کی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتی ہے.

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 6

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سوره آل عمران: 26) یعنی “اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو. خدا بھی تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے”.

کچھ لوگ رسول خداؐ کی خدمت میں آئے اور عرض کی: “ہم خدا سے بہت محبت کرتے ہیں” لیکن ان کا کردار اور عمل ان کی خدا سے محبت کی تصدیق نہیں کر رہے تھے. اس وقت یہ آیت نازل ہوئی “اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبّت کرتے ہو تو میری پیروی کرو”.

اس بنا پر جو شخص بھی دل میں الله تعالی اور اس کے اولیاء سے محبت کا اظہار کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ عمل میں بھی ان کی پیروی کرے تا کہ یہ پتا چلے کہ اس کا دعوی سچا ہے.

یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے کہ کوئی شخص الله تعالی سے محبت کے دعوے کو تو تکرار کرے لیکن عملی میدان میں اس کی اولیاء خدا سے کسی قسم کی کوئی شباہت ہی موجود نہ ہو؛ یا اسی طرح اگر کوئی خاتون بی بی فاطمہ زہرا (س) سے محبت کا دعوی تو کرتی ہو لیکن اس کا ظاہری حلیہ، لباس اور کردار ان سے کسی بھی قسم کی شباہت نہ رکھتا ہو!

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ مَا أَحَبَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مَنْ عَصَاه‌ُ (الأمالی، ص 489) یعنی “جو بھی الله تعالی کی نافرمانی کرے وه اسے دوست نہیں رکھتا”.

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص محبت کا دعوی تو کرے لیکن اپنے محبوب کی پیروی نہ کرے؟!

خلاصہ یہ کہ ایمانی زندگی میں ایک مومن انسان خدا، اس کے اولیاء اور اپنے درمیان موجود حقیقی محبت کے علاوه ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ ان کی پیروی کر کے اپنے دعوے کی سچائی کو ثابت کرے.

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 7

قرآنی زندگی کی ایک اور خصوصیت خدا کے دیگر بندوں کے ساتھ محبت اور انس رکھنا اور مشترک اعتقادات کی بنیاد پر ان کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہے.

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (سوره آل عمران: 64) یعنی “(اے رسول) کہیے اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک اور یکساں ہے (یعنی وہی چیز جسے تمام آسمانی کتابوں اور پیغمبروںؑ نے بیان کیا ہے)”.

اس آیت میں الله تعالی کا فرمان یہ ہے کہ: اے پیغمبرؐ! اہل کتاب سے کہیں کہ آؤ توحید کے پرچم تلے ایک ہو جائیں جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک اعتقاد ہے.

قرآن کیونکر عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ اتحاد کی دعوت دے رہا ہے؟ کیونکہ یہ سب ایک خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں.

قرآن مجید میں الله تعالی کے اس واضح حکم کو دیکھتے ہوئے جو حتی غیر مسلمان اہلِ کتاب سے بھی اتحاد کرنے کا حکم دیتا ہے، اس سوال کی گنجائش بنتی ہے کہ پھر ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے جو آپس میں اتنی زیاده مشترک چیزیں رکھتے ہیں بعض اوقات ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں؟!

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ دشمنانِ اسلام کی چال ہے لیکن اس سے بھی اہم بات اور اس کا میدان فراہم کرنے والی چیز دشمنوں کا مسلمانوں کو دھوکا دینا اور انہیں بھڑکانا ہے، اسی طرح مسلمانوں کا بے خبر ہونا اور ان کا قرآنی تعلیمات سے دور ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے ہاتھ میں اس طرح کا بہانہ آ جائے اور وه ایک دوسرے کے جانی دشمن بن کر قربةً الی الله ایک دوسرے کے قتل کے لیے اقدام کریں!!

#سپاره_3_کے_منتخب_پیغامات – 8