سوال: ایک انسان جو صحیح راستے پر چل رہا ہوتا ہے وه کس طرح سے فتنے میں مبتلا ہوتا ہے اور گمراه ہو جاتا ہے؟ جواب: امام علیؑ فرماتے ہیں کہ فتنوں کی شروعات ہوائے نفس (نفسانی خواہشات) کی پیروی اور احکام میں بدعت گذاری کرنا ہے. (نہج البلاغہ، خطبه 50)
مام علیؑ نے جنگ جمل، صفین اور نھروان کے بارے میں یہ فرمایا: گویا ان لوگوں نے الله تعالی کی یہ بات نہیں سنی: ”یہ آخرت کا گھر (آخرت کی سعادت) وه ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں اور عاقبت (نیک انجام) تو صرف صاحبان تقوی کے لئے ہے (سوره قصص، آیت 83)” ہاں! خدا کی قسم یہ لوگ اس آیت کو سن چکے تھے بلکہ اچھی طرح سے سمجھتے بھی تھے لیکن دنیا ان کی آنکھوں کے سامنے آراستہ دکھائی دے رہی تھی اور…
امام علیؑ نے جنگ جمل، صفین اور نھروان کے بارے میں یہ فرمایا: گویا ان لوگوں نے الله تعالی کی یہ بات نہیں سنی: ''یہ آخرت کا گھر (آخرت کی سعادت) وه ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں اور عاقبت (نیک انجام) تو صرف صاحبان تقوی کے لئے ہے (سوره قصص، آیت 83)'' ہاں! خدا کی قسم یہ لوگ اس آیت کو سن چکے تھے بلکہ اچھی طرح سے سمجھتے بھی تھے لیکن دنیا ان کی آنکھوں کے سامنے آراستہ دکھائی دے رہی تھی اور…
پہلے دن سے جب سے انسان اس عالم میں خلق ہوا سختیاں اس کی تخلیق کا حصہ رہی ہیں. یہ عارضی چیز نہیں ہے. اس کا راز یہ ہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے - وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً (سوره انبیاء: 35) یعنی "اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے" – اور آزمائش کے لئے خوشیوں اور غموں کا موجود ہونا ضروری ہے تاکہ پتا چل سکے کہ جب خدا انسانوں کو خوشیاں دیتا ہے تو وه کس طرح عمل کرتے ہیں اور سختیوں کے مقابلے میں کس طرح کا کردار اپناتے ہیں.…
وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي وَ مَجْدِي وَ ارْتِفَاعِي عَلَى عَرْشِي لَأَقْطَعَنَ أَمَلَ كُلِّ مُؤَمِّلٍ غَيْرِي بِالْيَأْسِ وَ لَأَكْسُوَنَّهُ ثَوْبَ الْمَذَلَّةِ عِنْدَ النَّاس (الکافی، ج2، ص66) اس حدیث قدسی میں الله تعالی قسم کھاتا ہے کہ جس کسی نے بھی میرے علاوه کسی سے امید لگائی، اس کی امید کو ناامیدی سے بدل دوں گا، نہ صرف یہ بلکہ اسے لوگوں کے درمیان ذلیل و خوار کر دوں گا. اب ہم اپنے آپ کو آزمائیں؛ کیا ہمارے کاموں میں حقیقتاً ہماری امید صرف خدا سے ہے؟ اگر ہم نے خدا سے امید لگائی ہو تو ہمیں کیسا ہونا چاہئے؟ یہ مسئلہ…
اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم صاحبانِ ایمان ہو (سوره مائده: 23) اس بات کا کیا مطلب ہے؟ یعنی میں بیٹھ جاؤں اور کہوں: خدایا میں نے تجھ پر توکل کیا، تو خود کاموں کو صحیح کر دے؟! نہ پیغمبرؐ اور آئمہؑ نے ایسا کام کیا ہے اور نہ ہی اولیائے خدا کی طرف سے ایسی نصیحت دیکھنے میں آئی ہے. (تو پهر) کیا یہ ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کی طرح، حتی وه لوگ جو خدا کو بھی نہیں پہچانتے، اپنی ساری طاقت و وسائل کے ساتھ ہر ممکن راستے سے کام کو انجام دینے کی کوشش کروں؟